پولیس افسر پر تشدد کے مقدمے میں عمران خان بری


اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سابق ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو پر حملے کے الزام میں درج ہونے والے مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بری کردیا ہے۔

وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے ملزم عمران خان کی طرف سے بریت کی درخواست پر فیصلہ 13 اپریل کو محفوظ کیا تھا۔

نامہ نگار کے مطابق عدالت کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں استغاثہ ملزم عمران خان کی وقوعہ پر موجودگی کو ثابت نہیں کرسکا اور نہ ہی ایسے ثبوت دیے گئے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ملزم نے ایس ایس پی پر حملہ کرنے کے لیے لوگوں کو اکسایا ہو۔

اس مقدمے کے پراسیکیوٹر محمد شفقات نے بی بی سی کو بتایا کہ عمران خان کے خلاف اس مقدمے میں ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو سمیت دیگر پولیس افسران نے جو بیان دیے ہیں اس میں یہ کہا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے پر ڈیوٹی پر تھے کہ چند نامعلوم افراد نے ان پر حملہ کیا جس میں سے وہ زخمی ہو گئے۔‘

سرکاری وکیل کے مطابق پولیس اہلکاروں کے ان بیانات میں نہ تو عمران خان کا ذکر تھا اور نہ ہی ان کی تقریروں کا ذکر ہے جس میں پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کے لیے اُنھیں اکسا رہے تھے۔

محمد شفقات نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ عصمت اللہ جونیجو سمیت دیگر پولیس افسران نے یہ موقف اس لیے اپنایا ہوگا کیونکہ اگر آئندہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آگئی تو ان کے لیے مشکلات ہوں گی۔

عصمت اللہ جونیجو اس وقت اسلام آباد پولیس میں اے آئی جی آپریشن ہیں۔

سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے اور اس ضمن میں ایڈووکیٹ جنرل کو ایک خط بھی لکھیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس مقدمے میں ساڑھے تین سال تک اشتہاری بھی رہے ہیں اور اس عرصے کے دوران اسلام آباد پولیس ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔

عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کے خلاف سیاس مقدمات بنائے گئے ہیں اور اگر ان کی جماعت اقتدار میں آئی تو عدالتی نظام کو بہتر کرے گی۔

ایس ایس پی پر حملہ کرنے کے مقدمے میں عمران خان چند ہفتے پہلے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ پر فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی اور ان کی بریت کا حکم سنا دیا گیا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون میں شق موجود ہے کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے بھی ملزم کی بریت ہوسکتی ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم عمران خان کو اس مقدمے میں دو تین مرتبہ بلایا تو عمران خان اپنی وکلا ٹیم پر برہم ہو گئے تھے کہ ’اُنھوں نے کہا تھا کہ ایک مرتبہ ہی عدالت جانا پڑے گا لیکن عدالت تو اُنھیں اب بارہ بار طلب کر رہی ہے۔‘

عمران خان کی بریت پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کے قائد نواز شریف نے کہا کہ ’بری نہ ہونے والے بھی بری ہو جاتے ہیں اور جنھوں نے کچھ نہیں کیا وہ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔‘

احتساب عدالت میں ریفرنس کی سماعت کے دوران مریم نواز نے عمران خان کی مقدمے میں رہائی پر تبصرہ کرتے ہو کہا کہ ’اوپر سے حکم آیا ہوگا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp