مجھے کیوں نکالا بمقابلہ خلائی مخلوق


پچھلے کافی دنوں سے ملک کے بیشتر اداروں میں ایک تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ تبدیلی کائنات کا ہمیشہ سے اصول رہی ہے۔ جدھر یہ تبدیلی معاشرے میں ایک خوشگوار لا رہی ہے۔ وہاں مخالف آراء کا کھڑے ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس خوش آئند تبدیلی سے کرپٹ لوگ خوف کھا رہے ہیں۔

29 اپریل کو تحریکِ انصاف نے ایک کامیاب جلسہ کر کے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ جلسے کی کامیابی کے بعد سیاسی مخالفین کو سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے، اور کیا کہے، تو وہ ایسے اوچھے الفاظ اور ہتھکنڈوں پر اتر آئیں ہے کہ خدا کی پناہ۔ یہ آج اس جماعت سے خائف ہیں جو کبھی ماضی میں ”ٹانگہ پارٹی‘‘ کے نام سے اخباروں کی زینت بنی تھی اور آج یہ کہتے ہوئے کسی کو عار محسوس نہیں ہو رہا۔ کہ تحریکِ انصاف ملک کی بڑی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ اس جماعت کو دیکھ کر اس مثل پر یقین ہو گیا کہ وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا ہے۔

ایک گھنٹہ 55 منٹ کی عمران خان کی تقریر اپنے گیارہ نکات پر مبنی تھی۔ اس دھواں دھار تقریر اور گیارہ نکات نے جہاں سیاسی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے۔ وہاں ایک عام پاکستانی کے سیاسی شعور کو بھی ہوا دی ہے۔ مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی گٹھ جوڑ شروع کر دیے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کو یہ خطرہ لاحق ہے۔ اور وہ گاہے بگاہے عوام کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں۔ کہ عمران خان کسی یہودی لابی کا ایجنٹ ہے اور اس کے آنے سے مغربی کلچر کو فروغ ملے گا اور ہمارے اسلام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اور اللہ کے بندو! تمہیں یہ کون سمجھائے۔ اسلام کو کوئی خطرہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی حفاظت کا ذمہ تو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ خطرہ تو مذہب اسلام کو تم جیسے نام نہاد مولویوں سے ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے معصوم عوام کو کبھی اسلام کے اصل تصور سے روشناس ہی نہیں کروایا اور جہاں کبھی کسی نے کوئی سوال اٹھانا چاہا تو اس کو گمراہی، کافری، ناموسِ رسالت جیسی سوچ رکھنے والوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ جاہل عوام کی بجائے معصوم عوام کا صیغہ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ کیونکہ میری ناقص رائے کے مطابق عوام جاہل نہیں ہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی لحاظ سے بے شعور ہیں۔ کیونکہ جہالت تو کسی اور چڑیا کا نام ہوتا ہے اور یہ بے شعوری بھی ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہے۔

سابق وزیراعظم کی نوحہ گری مجھے کیوں نکالا سے شروع ہوئی تھی اور کل رات تان اس بات پر آکر ٹوٹی ہے کہ اب میرا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے۔ یہ زمینی طاقتیں اور سیاسی جماعتیں میرے آگے کوئی شے نہیں رکھتی۔ اب اس کے بعد وہ کیا ارشاد صادر کرتے ہیں۔ یا تو وہ خود جانتے ہیں یا پھر خداوند تعالیٰ کی ذات۔ سچ مانیے پہلے تو آپ کی یہ بات سن کر دل میں بہت غصہ آیا۔ غصہ آپ کے تکبر یا سفر میں کہی ہوئی بات پر نہیں آیا۔ بلکہ اس بات پر آیا کہ آپ کی حیثیت ایک سربراہ کی تھی۔ سربراہ بھی مملکت پاکستان کا، کسی گھر یا محلے کا نہیں۔ آپ کا کہا ہوا ایک ایک لفظ نہ صرف 22 کروڑ عوام ہی سنتے اور دیکھتے ہیں بلکہ آپ کو آج بھی انٹرنیشنل فورمز پر سنا اور دیکھا جاتا ہے۔ یقین جانیے جب غصہ تھوڑا نارمل ہوا تو آپ سے پہلی دفعہ ہمدردی محسوس ہوئی اور دل نے چاہا کہ آپ کے پاس جاؤں اور آپ کو تسلی دوں۔ اور بتاؤں کہ صادق اور امین تو بہت سارے لوگ نہیں ہے اس کائنات میں لیکن اپنا مذاق خود اپنے ہاتھوں سے بہت کم لوگ بنواتے ہیں۔ اور آپ برائے مہربانی ان باشندوں کی فہرست میں اپنا نام نہ ڈالیں۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر سیاسی جماعت نے یہ کردار بخوبی نبھایا ہے کہ وہ کارکنوں اور ووٹروں کو ذاتی مفادات اور شخصیت پرستی تک محدود رکھیں۔ ملکی اور گروہی مفادات کے بارے میں سوچنا تو کسی مائی کے لال نے سکھایا ہی نہیں۔ آپ کسی پارٹی یا ووٹر کی رائے لے لیں۔ وہ آپ کو اپنے ذاتی مفادات سے باہر نکلتا ہوا محسوس نہیں ہو گا۔ لوگ آج بھی بے نظیر انکم سپورٹ، لیپ ٹاپ سکیم، راشن سکیم، قبریں پکی کروانے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اور سیاسی جماعتیں ان معصوم لوگوں کو یہ چورن پچھلے 70 سال سے بیچ رہی ہے۔ اور اگر کوئی اس لالچ سے باہر نکلنا چاہے تو اسے بھی ایک پروپیگنڈا کے ذریعے دوبارہ قائل کر لیا جاتا ہے۔

ان سب مسائل سے نکلنے کے لیے عمران خان نے 22 سال کی طویل مسافت طے کی ہے اور 29 اپریل کا تاریخی جلسہ اس کامیابی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ خان صاحب! یہ خداوند تعالیٰ کی ذات جانتی ہے کہ آپ مستقبل میں کسی سیاسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں کہ نہیں لیکن تاریخ یہ ضرور لکھ رہی ہے۔ کہ کوئی تھا ایسا مردِ مجاہد اس پاک سر زمین پر جس نے عوام کو سیاسی بے شعوری سے نکال کر سیاسی شعور کے دریچوں پر لا کھڑا کیا تھا جس نے ملک کے بڑے بڑے اداروں کو ایک دفعہ ہلایا تھا جس نے سالہا سال سے چلتی ہوئی ہوا کا رخ بدلا تھا۔ میں مانتی ہوں کہ لوگوں کو ابھی حق پوری طرح سے ملنا شروع نہیں ہوا ہے لیکن اتنا ضرور ہو گیا ہے کہ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ اب غلط کام کرتے ہوئے خوف سے سوچتے ضرور ہیں اور کوئی بھی فیصلہ لیتے وقت غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اللہ آپ کی عزتوں میں اور اضافہ کرے۔ (آمین) اور پاکستان کو رہتی دنیا تک سلامت رکھے۔ (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).