سانپ اور سیڑھی کا کھیل


نوازشریف آج کل مزاحمتی لیڈر سمجھے جا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ ہو یا عدلیہ کے خلاف بیانیہ ہو، وہ سمجھتے ہیں ان کے خلاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سازشی جال بن رہی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ انتخابی نعرہ بن چکا ہے۔ یعنی وہ پارلیمانی بالادستی اور سویلین کی بالادستی چاہتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت پسند لوگ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ نوازشریف اس وقت نیب کے گرداب میں پھنسے ہیں، خاندانی سیاست داؤ پرہے، سزا سامنے نظر آ رہی ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ کیا یہ واقعی نوازشریف کا دوسرا جنم ہے۔ یا یہ نیا روپ ذاتی، سیاسی عزائم کے حصول کے لیے ھے یا سیاسی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کے لئے ہے۔

یقین دلانا ہوگا۔ ۔ کیونکہ یادوں کے دریچے سے ماضی پر نظرڈالیں تو تصویر مختلف نظر آتی ہے۔۔۔۔

 1980 کی دہائی ضیاالحق کا آمرانہ دور، جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد، نوازشریف کا سیاسی جنم ضیاالحق کے پنگوڑے میں ہوتا ہے، سیاسی مشعل پکڑوانے والے یا سپرد کرنے والے جنرل جیلانی، وزیر خزانہ، پنجاب کے وزرات اعلیٰ پر فائز، دائیں بازو کے نظریات کے پرچار کے ساتھ بھٹو خاندان کی دشمنی کے بل بوتے پر پھلنے پھولنے والے نوازشریف۔

اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مہم آئی جے آئی کی صورت میں جمہوری قوتوں کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا۔ جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ بھی لگایا۔ بے نظیر کی دوسری حکومت کے خاتمے کے خالق اور اسٹیبلشمنٹ کے مہرے سابق صدر فاروق لغاری کی حمایت کی۔

سابق آمرجنرل پرویزمشرف نے آئین بالائے طاق رکھا تو نوازشریف معاہدہ کر کے راتوں رات سعودی بادشاہوں کے محل میں جا بیٹھے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں میموگیٹ اسکینڈل میں عدلیہ کے پیش پیش موجود، کیا ان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ نوازشریف کی سیاسی سوچ میں تبدیلی کی غمازی کرتا ہے۔

نوازشریف دوراہےپر تو کھڑے ہیں، تاحیات نااہلی، پارٹی صدارت سے محرومی اور نیب کے مقدمات میں سزا کا قوی امکان، خود ذہنی طور پر تیار، مئی کا مہینہ کڑی آزمائش، فیصلہ متوقع، سزا نگراں سیٹ اپ کے دور میں آنے کی بازگشت، سیاسی علم اپنی صاحبزادی مریم کے سپرد کرنے کی خواہش، وہ بھی مقدمات کے پھندے میں، اسی وجہ سے شہبازشریف، حمزہ، مریم کے ساتھ حال ہی میں میڈیا بیٹھک لگائی، داؤ پر بہت کچھ، انتخابات کی الٹی گنتی شروع، تجزیہ کار، سیاسی پنڈت اپنی اپنی جھولیوں میں سازشی تھیورییاں لئے پیش گوئیوں میں مصروف، گویا اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کا سیاسی اتحاد کرائے گی، حکومت بنوائے گی، عمران خان وزارت عظمیٰ کے تخت کے بہت قریب، آزاد امیدوار بڑی تعداد میں منتخب ہوکر اسٹیبلشمنٹ کے من پسند سیاسی اتحاد میں شمولیت اختیار کریں گے۔ مخلوط حکومت ہو گی گویا بھان متی کا سیاسی کنبہ پروان چڑھے گا۔ نوازشریف جیل جائیں گے، مریم کو بھی سزا ہوگی، شہبازشریف بچی کچھی مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی جان کی امان پانے والی صورت حال سے دوچار ہوں گے، یا اسٹینلشمنٹ کے ساتھ ماضی کی یاری شہباز شریف ہر واری صدقے ھو گی۔ وغیرہ، وغیرہ، سازشی تھیوریاں، اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ سیاسی عزائم، سیاست کے ساتھ کھلواڑ، نوعمری سے سنتے اور دیکھتے آرہے ہیں، اصل بات ہے سیاسی جماعت اور رہنماؤں کے لئے عوام کا اعتماد، ہمدردیاں اور ان کے سیاسی نظریات کے ساتھ دھڑکتے دل، جنرل یحییٰ خان کو بھٹو صاحب کو بادل نخواستہ قبول کرنا پڑا کیونکہ عوام کی حمایت حاصل تھی، کتنا ہی ظلم ڈھا لیا، بی بی لاکھوں کے مجمعے میں لاہور واپس آئیں اور وزیراعظم بھی بنیں، پیرپگارا، غلام مصطفی جتوئی، کھر اور بڑے بڑے جن اسٹیبلشمنٹ کی بوتلوں میں رہے سب کو انتخابات میں شکست ہوئی، انیس سو نوے، انیس سو ترانوے اور انیس سو چھیانوے میں بی بی، نوازشریف حکومتیں کرتے رہے، اگر وہی ہوتا جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی تو چوہدری شجاعت اور غلام مصطفیٰ جتوئی دس، دس برس وزیراعظم رہتے، ہمارے کامریڈ ساتھی تجزیہ کرتے ہوئے ماضی کے آمرانہ گرداب کی گردش میں پھنس جاتے کہ کچھ نہیں بدلا، سب اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے۔ ملک میں وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت کچھ بدلا ہے۔

وہ سیاسی قوتیں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ چاہتی ہیں جن کو اپنے عزائم کے لئے مدد درکارہوتی ہے، پیپلزپارٹی کو اپنے ماضی میں ہم کوستے تھے گورننس اور مبینہ بدعنوانی کے لئے مگر یہی کہتے تھے شعیہ، سنی، احمدی، عیسائی، غرض ہر فقہ، سوچ اور مذہب کے افراد پیپلزپارٹی کی نظریاتی سیاسی چھتری تلے پناہ لے سکتے تھے لیکن کیا ہم اب یہ کہہ سکتے ہیں؟ اب عوام کی سپورٹ نہیں ہے۔ زرداری اور پارٹی قائدین ان وجوہات جن کی بنیاد پر سپورٹ کم ہوئی ان کے حل تلاش کریں۔ کہیں نہ کہیں اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے وہ خلا پر کرتے نظر آ رہے ہیں۔  اگر پیپلزپارٹی والے نظریات کے سیاسی محور سے ہٹتے ھیں تو نقصان ہی نقصان ہے۔ اگر اقتدار نہیں ملتا تو آگے کا سفر یعنی دو ہزار تیئس کے انتخابات کے لئے کوشش کریں۔

نوازشریف اورعمران خان عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں کچھ برس بعد وہ ضیعف کہلائیں گے، عمران خان کو اقتدار کا کڑوا ذائقہ ضرور چکھنے کا موقع ملنا چاہئے، مگر عوام کی حمایت کے ساتھ، بلاول کے پاس چانس ہے اگر پارٹی نظریات کے ساتھ سفر جاری رکھے۔

صرف اقتدار ہی سیاست کی منزل نہیں۔

سیاست عوام کے لئے، جمہوریت عوام کے لئے، جمہوری تسلسل اور پارلیمان کی بالادستی، عوام کے مسائل کے حل کے لئےھے۔ سیاسی جماعتیں، جمہوری قوتیں، اسٹیبلشمنٹ اور خود میڈیا بارہا سیاسی، معاشرتی تغیرات کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ پشتونوں کا احتجاج، ہزارہ برادری کا احتجاج، بلوچوں کا احتجاج، یہ نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کااحتجاج، سیاسی، معاشرتی تبدیلیوں کا سیلاب ہے۔ بحث مباثہ کے لئے کچھ جائز اور کچھ ناجائز، آئین اور قانون کے دائرے میں مطالبات حل کرنے کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے، ایران، افغانستان اور انڈیا کی سازشیں گردانتے ہوئےکچلا نہ جائے، نظرانداز نہ کیا جائے، ان سیاسی، سماجی تحفظات، تبدیلیوں کو ریاستی دھارے میں لاکر بیانیے میں شامل کیا جائے، انتخابات صرف ووٹ کا نام نہیں، عوام کے مسائل کے لئے سیاسی حل تلاش کر کے ریاست کا مستقبل سنوارنے کا نام ہے۔

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid