پراگ میں معلق فرائیڈ، منقسم پارلیمنٹ اور کیپٹن صفدر


حسن مجتبیٰ سے بالمشافہ ملاقات نہیں رہی۔ کوئی پندرہ برس پہلے انہیں پڑھنا شروع کیا۔ لکھا ہوا لفظ ایسی کیفیات بھی بیان کر دیتا ہے جو روبرو ملاقات میں اوجھل رہ جاتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ظفر یاب احمد ، سیدہ دیپ ، حیدر رضوی اور جوہر میر والے قبیلے سے ہیں۔ پتا ٹوٹا ڈال سے، لے گئی پون اڑا۔ ہمیں تو ابھی امین مغل اور منور مسعود کی وطن بدری کا ملال نہیں بھولا۔ پیدا کئے تھے چرخ نے جو خاک چھان کے، وے لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے ….حسن مجتبیٰ سے مگر ایک غائبانہ ڈور بندھی ہے۔وہاں تھر کی بھوبھل ریت کے نیچے دھرتی کی ٹھنڈک ہے اور یہاں خشک تالاب میں تاحدنظر ٹیڑھی میڑھی لکیروں کا جال بچھا ہے۔ کیسے خیال سے خیال جا ملتا ہے۔ محترم آصف علی زرداری نے معلق پارلیمنٹ کا امکان ظاہر کیا تو مجھے پراگ کے میسٹوسٹیئر میں سیب کے پیڑوں والی گلی میں معلق سگمنڈ فرائیڈ کا مجسمہ یاد آیا جو ایک افقی سلاخ کے آخری سرے پر ایک ہاتھ سے لٹک رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص خودکشی پر آمادہ ہے۔کسی بھی لمحے ہاتھ چھوٹ گیا تو نیچے گلی میں آن گرے گا۔

پراگ میں معلق سگمنڈ فرائیڈ

یہ مجسمہ پولینڈ کے شہرہ آفاق مجسمہ ساز ڈیوڈ سرنی نے 1996 ءمیں بنایا تھا۔ اس میں جبر اور آزادی ، آمریت اور جمہوریت ، تخلیق اور جمود نیز زندگی اور موت کے درمیان حائل لکیر کی نزاکت بیان کی گئی ہے۔ میں پراگ میں معلق سگمنڈ فرائیڈکے مجسمے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ حسن مجتبیٰ نے پولینڈ کے گاﺅں لیڈیشے کی کہانی بیان کر دی ۔ اس سانحے میں مرنے والے82 مظلوم بچوں کی یادگار کی تصویر کشی بھی کر دی۔ پھر یہ بھی کہا کہ ایسی یادگاریں تو ہمارے ہر گاﺅں میں تعمیر ہو سکتی ہیں۔ حسن مجتبیٰ بھول گئے کہ ہم نے تاریخ کو فراموش کرنے پر کمر باندھی ہے۔ ہم تو جغرافیہ نہیں پڑھتے کہ جغرافیے کو تاریخ کی طرح مسخ نہیں کیا جا سکتا۔ میلان کنڈیرا نے کیا اچھی بات کہی تھی کہ فن فراموشی کے خلاف یادداشت کی جدوجہد ہے۔ ہم یادداشت سے خائف لوگ ہیں۔ ڈرتے ہیں کہ تاریخ کو یاد رکھا تو ماضی کی کسی غلطی کی نشان دہی کا امکان پیدا ہو سکتا ہے اورجہاں سے غلطیوں کا صدور ہوتا رہا ہے اس ملک کے لوگوں کو اس بام بلند تک رسائی کی اجازت نہیں ہے۔

لیڈیشے (پولینڈ) کے مقتول بچے

درویش کو فنون لطیفہ میں دستگاہ نہیں لیکن اساتذہ نے بتایا کہ مجسمہ سازی میں کلیدی نکتہ موضوع کی تفصیل میں پنہاں ہوتا ہے۔ سامنے کی بات یہ کہ مجسمہ معمولی قدوقامت سے زیادہ حجم رکھتا ہے تاکہ آنکھ پر بھرپور تاثر قائم ہو سکے۔ ہمارے یہاں لاہور میں کسی عقل مند نے الحمرا آرٹس کونسل کے لان میں بابائے قوم محمد علی جناح کا مجسمہ نصب کر دیا ہے۔ اللہ اللہ ۔ فن کا ایسا بھونڈا نمونہ اور پیشکش میں ذوق سے مکمل بے گانگی۔ عمارت کے ایک نیم پوشیدہ گوشے میں چھ فٹ قد کے قائداعظم محمد علی جناح کا بمشکل پانچ فٹ اونچا مجسمہ ایستادہ ہے۔ سرتاپاگہرا سبز رنگ تھوپ دیا ہے۔ ایک بے نام کتاب بابائے قوم کی بغل میں رکھ دی ہے۔ اس پر دستور پاکستان ہی لکھ دیا ہوتا۔ غالباً یہ پاکستان میں کسی عوامی جگہ پر بابائے قوم کا پہلا مجسمہ ہے۔ پہلی ہی نظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بابائے قوم پر توہین عدالت کا الزام لگا ہے اور وہ شکوہ عدل کی تاب نہ لاتے ہوئے مرجھا کر رہ گئے ہیں۔ تنقید مقصود نہیں لیکن بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا تو کم از کم مبادیات ہی کا خیال کیا ہوتا۔ قائد کی شخصیت میں استقامت، جرات، دیانت داری اور عزیمت جیسی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ اس مجسمے میں ان خوبیوں کا کوئی نشان تک نہیں۔خیر اس پر گلہ بے جا ہے ۔ ہم اپنی تاریخ سے بھاگے ہوئے لوگ ہیں اگرچہ ہماری کیفیت تاریخ میں محفوظ ہے۔ کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔


محترم آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ہماری تاریخ کے گیارہ میں سے چھ انتخاب جیتے تھے۔ پیپلز پارٹی وفاق کی سیاست کی علمبردار رہی ہے۔ جمہور دشمنوں سے پنجہ آزمائی کی روایت اس جماعت کا اثاثہ ہے۔ غریبوں اور محکوموں کو آواز بخشنے کا دعویٰ رکھنے والی اس جماعت کو اگلے انتخاب میں اعتماد سے قدم رکھنا چاہیے۔ عوام کو معاشی ، معاشرتی اور سیاسی خدوخال کا ایسا نمونہ پیش کرنا چاہیے جس میں ووٹ دینے والا اپنی امنگوں کا عکس دیکھ سکے لیکن محترم آصف علی زرداری پریم چند کی کہانی ’شطرنج کے کھلاڑی ‘کا تتمہ لکھ رہے ہیں۔ بلوچستان میں دستکاری دکھا چکے۔ سینٹ میں چیئرمین کا منصب بھی کھویا اور عزت سادات بھی گنوائی۔ جوگ لیا پر قائم رکھا پردہ دنیا داری کا….اور اب کس پندار سے معلق پارلیمنٹ کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔

سرکار والاتبار !اس ملک میں معلق پارلیمنٹ جمہور دشمنوں کا خواب رہی ہے۔ 1970 ءمیں یحییٰ خان اور اس کا ٹولہ معلق پارلیمنٹ چاہتے تھے ۔ عوام نے واضح فیصلہ دیا تو جھنجھلا کر ملک توڑ دیا۔ 1985 ءمیں ضیاالحق نے غیر جماعتی انتخابات معلق پارلیمنٹ کا کھیل کھیلنے کے لیے ہی منعقد کروائے تھے۔ غیر جماعتی سیاست کے نمونے میں کوئی اصول کارفرما ہوتا تو انتخابات ہوتے ہی مسلم لیگ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ پرویز مشرف نے خودکاشتہ سیاسی ٹولوں کی جو کیاریاں لگائی تھیں ان کا مقصد بھی ایک معلق پارلیمنٹ تھا۔ زرداری صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ تحفظ پاکستان ، دفاع پاکستان، پٹریاٹ اور اصلاح معاشرہ جیسے خوانچے کیوں لگائے جاتے ہیں۔ 2008 ءسے 2013 ءتک زرداری صاحب اور ان کی جماعت کو جس پل صراط سے گزرنا پڑا ، اس کی حقیقت زرداری صاحب سے بہتر کون جانتا ہے۔ کبھی دو ہفتے کے لیے دوبئی جانا پڑا تو کبھی پندرہ مہینے کے لیے گوشہ نشینی اختیار کی۔ زرداری صاحب اس کھیل میں بال ٹمپرنگ کے گر بھی جانتے ہیں اور تھرڈ امپائر کے حربے بھی سمجھتے ہیں۔ شکوہ یہ ہے کہ ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگانے والے آصف علی زرداری آج بودے دلائل سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جوڑ توڑ کی سیاست ، خرید و فروخت کی منڈی اور تاریخ کے مفید مطلب اقتباسات کی مدد سے پاکستان کو مستحکم جمہوریت اور معاشی ترقی کے راستے پر ڈالا جا سکتا ہے۔

رستم کیانی فرمایا کرتے تھے کہ المیہ یہ ہے کہ تصویر کے دونوں رخ یکساں طور پر تاریک ہیں۔ ایک پچپن سالہ سیاست دان کیپٹن محمد صفدر کے نام سے سرگرم عمل ہیں۔ پہلی دفعہ انتخابی میدان میں اترے تو کل ملا کے 108 ووٹ لیے تھے۔ خدا کی شان ہے کہ کپتان صاحب اب اس ملک کی تاریخی اور تہذیبی روایت کی اصلاح پر نکلے ہیں۔ ایک تقریر گزشتہ برس اکتوبر میں قومی اسمبلی کے فلور پر کی تھی اور اب ایک قرارداد منظور کروائی ہے ۔ ستم ظریفی یہ کہ جب قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کے عین نیچے ملک کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنس دان سے ایک نمائشی اعزاز چھیننے کی قرارداد منظور کی جا رہی تھی عین اس وقت سرحد پار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دروازے پر بی جے پی کے ڈنڈا بردار ہنگامہ کر رہے تھے کہ یونیورسٹی میں قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کیوں آویزاں ہے۔

بی جے پی کے فتنہ پرور ہماری آزادی کی تاریخ سے 1919ء کا برس حذف نہیں کر سکتے اور نہ بمبئی میں وہ عمارت ختم کر سکتے ہیں جو محمد علی جناح کی حریت کا نشان ہے۔ سرحد کے اس پار چند ووٹوں کے لیے پاکستان کے شہریوں کی مساوات کو جھٹلانے والے فزکس کے ارتقا میں ڈاکٹر عبدالسلام کا نام ختم نہیں کر سکتے۔ تاریخ کے دونوں طرف جمہوریت کے نام پہ ایسے گروہ اکثریت کا جبر مسلط کرنا چاہتے ہیں جو جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی انسانی مساوات اور حقوق کی برابری کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے۔ جب مستقبل میں ہمارا فنکار آج کی منظر کشی کرے گا تو پراگ کے معلق مجسمے پر ایک کی بجائے دو مورتیاں لٹکائے گا تاکہ آنے والی نسلیں جان سکیں کہ معلق ذہن اور معلق پارلیمنٹ کی مدد سے مسائل حل نہیں ہوتے، بحران کے تسلسل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).