پروفیسر عبدالسلام کی تصویر


حیاتیات اور طبیعات میں بہت فرق ہے۔ ایک زمین کی سائنس ہے اور دوسری آسمانوں کی۔ ہم نے حیاتیات سے متعلق مضمون کے لئے یونیورسٹی کا رخ کیا۔ الیکٹران، پروٹان اور کشش ثقل وغیرہ سے آگے کی گتھیاں ہماری سمجھ سے باہر تھیں لیکن ڈاکٹر عبدالسلام سے مرعوب ہونے کے لئے ان کا نام ہی کافی تھا۔ پہلے مسلمان نوبل انعام یافتہ اور وہ بھی احمدی۔

لیکچر پڑھنے جاتے تو ایک ڈیپارٹمنٹ کی دیوار پر سٹینسل سے چھپا ہوا نعرہ نظر آتا۔ ‘مرزائی کافر‘۔ سنا تھا کہ یہ نعرہ سن 1974 کے دنوں سے وہیں ہے۔ انتظامیہ نے اسے تاریخی ورثہ سمجھ کر بیس برس سے وہیں چھوڑا ہوا ہے۔ احمدی دوستوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماری یونیورسٹی میں آمد سے دو سال قبل ایک ہاسٹل کے میس میں احمدی طلبا کے برتن الگ کر دئیے گئے تھے۔

ان احمدی طلبا سے ایک روز دعوت ملی کہ ماہانہ میٹنگ میں مل بیٹھتے ہیں۔ ہاسٹل کے کمرے میں دس بارہ جوان اکٹھے ہوئے۔ تعارف کروا رہا تھا کہ ایک دوست نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔ دروازے کے اندر کی طرف پروفیسر عبدالسلام کی تصویر آویزاں تھی۔

دروازہ بند کرنے کا مقصد آس پاس کے لوگوں کے تجسس سے بچنا تھا۔ یونیورسٹی کا ماحول ویسے ہی جمیعت کی غنڈہ گردی کی وجہ سے محبوس تھا۔ اس پر کشمیر کے جہاد کے نام پر اور تنظیمیں بھی سر گرم تھیں۔ اتنے مولویوں سے بچ بچا کر میٹنگز کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ لیکن اللہ بھلا کرے، ہمارے یونیورسٹی کے احمدی دوستوں نے متواتر روابط قائم رکھے۔

ہر میٹنگ اسی کمرے میں ہوتی۔ دروازہ بند کر کے نماز باجماعت پڑھتے۔ اور سلام پھیرتے ہی پروفیسر سلام کی تصویر نظر میں آ جاتی۔ میں یہی سوچتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو نہ جانے اس دس بارہ ہزار طالبعلموں کی یونیورسٹی میں کتنے جانتے ہوں گے۔ کتنوں کو ان کی بیماری کا علم ہو گا۔ کتنے یہ سوچتے ہوں گے کہ ان کے نقش قدم پر چلا جائے۔ ریسرچ کے میدان میں نام کمایا جائے۔

پھر پتہ چلا کہ پروفیسر صاحب فوت ہو گئے۔ ہم افسردہ ہوئے۔ ان کے جنازے کی خبریں سنیں۔ ہمارے کچھ دوست ربوہ جنازے میں شریک بھی ہو آئے۔

ہاسٹل میں ان کی وفات کا ذکر چند غیر احمدی دوستوں سے بھی سنا۔ شریف الطبع دوست تھے۔ ہم سے افسوس کا اظہار کیا لیکن ان کے حالات زندگی سے وہ ناواقف تھے۔ کچھ نے ان کے نوبیل انعام کے پیچھے انگریز اور صیہونی سازش کا تذکرہ بھی کیا۔

یونیورسٹی کے چار سال گزر گئے۔ اس کمرے میں ڈاکٹر صاحب کی تصویر جوں کی توں رہی۔ دروازے کے پیچھے چھپی ہوئی۔ ہم احمدی بھی اسی طرح اپنے اپنے پردوں میں چھپے تعلیم حاصل کر گئے۔ ہر کسی نے اچھے گریڈ حاصل کئے۔ برتن الگ کرنے کو نوبت نہیں آئی ۔ ہاں کچھ لوگوں نے سلام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اور چند کو روزہ افطار کرتے وقت ہمارے ساتھ بیٹھتے ہوئے الجھن ہوتی۔ لیکن اللہ بھلا کرے ان سب کا، کسی نے بائیکاٹ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی فتنہ کھڑا ہوا۔ ہمارے یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے چند برس بعد ساتھ والے میڈیکل کالچ سے البتہ تمام احمدی طلباء کو نکال باہر کر دیا گیا تھا۔

اس بات کو دو دہائیاں بیت گئیں۔ ان دس بارہ دوستوں سے اب بھی رابطہ ہے۔ جب بھی ان سے بات ہوتی ہے، وہ ڈارمیٹری یاد آ جاتی ہے۔ وہ جیسے کسی محصور قلعے کا بالا حصار تھی۔ جس میں ہم احمدی دروازہ بند کرکے نمازیں بھی پڑھ لیتے اور اپنی میٹنگ کا آغاز تلاوت قران پاک سے کر لیتے۔ اور اس ڈارمیٹری کے بند دروازے پر چسپاں پروفیسر محمد عبدالسلام کی وہ رنگین تصویر۔ وہ ذہانت سے چمکتی ہوئی آنکھیں اور خوداعتمادی سے بھرپور چہرہ جسے دیکھ کر ہمت بڑھتی تھی۔ پروفیسر صاحب نے سنہ 53 کے فسادات دیکھے اور سنہ 1974 کا ظلم بھی اور پھر ضیا دور کی ظلمتیں بھی۔ اب ہماری باری تھی۔ سو ہم نے بھی ظلم کا ایک سلسلہ دیکھ لیا ہے۔ لیکن پروفیسر صاحب کے نام سے اس طرح بدکنے والوں کے کرتب دیکھ کر کچھ ان پر ترس آتا ہے اور کچھ پاکستان کے نصیب پر رونا آتا ہے۔ پروفیسر عبدالسلام صاحب مرحوم کی تصویریں دنیا کی یونیورسٹیوں کے دفاتر اور لیکچر ہالوں میں آویزاں ہیں۔ اور ایک پاکستان ہے جہاں وہ ہاسٹل کے اس کمرے کے دروازے کی اوٹ سے بھی نکل نہیں پائی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).