کیا پاکستانی فوج انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتی ہے؟


انڈیا پاکستان فوج

شمالی کوریا محض چند ماہ قبل تک جوہری اسلحے اور بین الابراعظمی میزائلوں کے تجربوں اور دھمکیوں کی زبان بول رہا تھا، جسے نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا تھا۔

تاہم گذشتہ ماہ کی 27 تاریخ کو اسی شمالی کوریا نے وہ کام کر دکھایا جو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ اس نے جنوبی کوریا کے ساتھ سنہ 1953 کے بعد سے جاری جنگ باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

جارحانہ عزائم اور بظاہر آمرانہ شخصیت کے حامل سمجھے جانے والے شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن نے خود چل کر دونوں ممالک کے درمیان قائم عارضی سرحد کو پار کیا۔

جزیرہ نما کوریا پر ہونے والے اس بڑے واقعے کے بعد جنوبی ایشیا میں بھی خصوصا سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر یہ سوال گردش کرنے لگا کہ ‘اگر دونوں کوریا ایسا کر سکتے ہیں تو انڈیا اور پاکستان کیوں نہیں؟’

دو مختلف تاریخ رکھنے والے خطوں کے مابین ایسی مماثلت کھینچنے کے خیال پر ماہرین کی رائے تقسیم کا شکار ہے تاہم خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کم از کم پاکستان کی جانب سے ایسے اشارے دیے گئے ہیں کہ وہ انڈیا کے ساتھ امن چاہتا ہے۔

ایسے اشارے خصوصا پاکستان کی فوج کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز رواں برس مارچ میں ہوا جب تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام آباد میں انڈین سفارت خانے کے دفاع کے اتاشی کو پاکستان ڈے کی پریڈ پر مدعو کیا گیا۔

رواں برس ہی دونوں ممالک کی افواج شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کے تحت ستمبر میں روس میں منعقد ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی حصہ لینے کے لیے تیار ہو گئی ہیں۔

تاہم کشمیر میں انڈین فوج کو جارحیت کا سامنا ہے جس کے لیے وہ اکثر پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتا ہے، جبکہ گذشتہ کچھ ماہ سے لائن آف کنٹرول پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان انڈیا پر پہل کرنے کا الزام لگاتا ہے۔

مگر ساتھ ہی ساتھ چند ہی روز قبل پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے طور ایک بیمار انڈین قیدی کو رہا کیا گیا اور اس سے قبل ایک انڈین شہری کو واپس بھیج دیا گیا جو غلطی سے سرحد پا کر آیا تھا۔

فوج کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟

کیا پاکستانی فوج کی جانب سے ایسے دوستانہ اقدامات کو انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف خواہش کا اشارہ سمجھا جا سکتا ہے؟

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد کے خیال میں کچھ ایسا ہی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کی قیادت کا یہ خیال ہے کہ گذشتہ 70 برس سے ایک دوسرے کے ساتھ تصادم اور چار جنگوں کے باوجود کشمیر سمیت سیاچن تک کسی مسئلے کا حل نہیں نکلا ہے۔ اگر آئندہ 300 برس بھی تصادم رہے تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔

بلکہ دونوں ممالک ترقی نہیں کر پائیں گے۔ ‘اس لیے یہ ایک سوچ ضرور پائی جاتی ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے، تو دیکھنا یہ ہے کہ انڈیا یہاں سے ہاتھ پکڑ کر آگے چلتا ہے یا نہیں۔ بد قسمتی سے انڈیا کی حالیہ حکومت انتہائی پاکستان مخالف خیالات رکھتی ہے۔’

ڈاکٹر الحان نیاز اسلام آباد کی قائدِاعظم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور جنوبی ایشیا کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کا مؤقف گذشتہ دس پندرہ برس سے یہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کو کشمیر سمیت تمام مسائل بات چیت سے حل کرنا چاہییں۔

اگر پاکستانی فوج مثبت اشارے دے رہی ہے اور اگر انڈیا اس کو مثبت طریقے سے وصول کرتا ہے تو اچھی بات، تاہم ان کے مطابق ‘بنیادی طور پر دونوں ریاستوں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔

سوچ کی تبدیلی کی وجہ کیا؟

لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں شعبئہ سیاسیات کے پروفیسر اور تجزیہ کار شبیر احمد خان کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے حالیہ اشارے چین کی طرف سے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کی کامیابی کے خواہش کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔

‘میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ پاکستان پر دباؤ ہے تاہم اثر و رسوخ ضرور استعمال ہوا ہو گا۔’

وہ بھی شمالی کوریا کی مثال دیتے ہیں۔ ‘چائنا نے ایسا ہی کچھ جزیرہ نما کوریا میں کیا۔ کہاں شمالی کوریا دھمکیاں دے رہا تھا اور کہاں اس نے اچانک دنوں میں جنگ ہی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔’

جبکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد کہتے ہیں کہ شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کے تحت ہونے والی مشقوں میں انڈیا اور پاکستان کی افواج کی شراکت کے حوالے سے پس پردہ جو شرط رکھی گئی ہو گی وہ یہی ہو گی کہ یہ دونوں ممالک اپنی دشمنی ایس سی او میں مت لائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید اس بات کا احساس بھی پایا جاتا ہے کہ ‘ہمارا کشمیر کا بیانہ چل نہیں رہا، دنیا بھر میں کوئی اسے خرید نہیں رہا۔ اس میں پاکستان کو نئی سوچ اور فکر لانی چاہیے۔’

‘کشمیر پر پاکستان کا اصولی مؤقف ہے اور اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ مگر دنیا میں باقی ممالک ہیں جو مسائل پر اپنا مؤقف تبدیل کیے بعیر بھی اکٹھے کام کر رہے ہیں، آپ انڈیا اور چین ہی کو دیکھ لیجیے۔’

انڈیا اور چین کے ایک دوسرے سے زمین کےاور سرحدی تنازعات ہے اور وہ دونوں اپنے موقف پر آج بھی قائم ہیں مگر اس کے باوجود دونوں میں بات چیت بھی ہوتی ہے اور تجارت بھی چل رہی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ ان کے خیال میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوج کو مل کر اس مقصد کے لیے کام کرنا ہو گا تو ہی کامیابی ہو گی۔ اگر سیاسی قیادت پیچھے رہے یا انہیں اجازت نہ ہو اور صرف فوج ہی یہ کام کرے تو یہ چل نہیں سکے گا۔

باجوہ ڈاکٹرن یا کیانی ڈاکٹرن؟

کیا یہ تبدیلی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ڈاکٹرن یا نظریے کا نتیجہ ہے؟

پروفیسر شبیر احمد خان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے یہ ممکنہ نظریاتی تبدیلی موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے نظریات کے نتیجے میں سامنے آئی ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں پہلی بار پاکستانی فوج کی جانب سے ایک لفظ سامنے آیا تھا کہ ‘پاکستان کی سلامتی کو جو خطرہ لاحق ہے وہ انڈیا سے نہیں بلکہ ہوم گرون یعنی گھر سے پیدا ہونے والا ہے۔’

ا س کے بعد فوج کے اگلے سربراہ جنرل راحیل شریف آئے اور انھوں نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع کیے۔ حال ہی میں جنیوا میں جنرل باجوہ نے بھی کہا کہ ‘پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ ہم نے 40 سال پہلے پیدا کیے تھے۔’

ان کے خیال میں یہ جنرل اشفاق کیانی ہی کے ڈاکٹرن کا تسلسل ہے۔

کیا انڈیا مثبت جواب دے گا؟

شبیر احمد خان سمجھتے ہیں کہ انڈیا پاکستانی فوج کے ان اشاروں کا مثبت جواب دے گا کیونکہ وہ بھی نہیں چاہے گا کہ وہ پاکستان کی طرف سے کسی مسئلے میں الجھے۔

‘انڈیا ایک بہت بڑی منڈی بن چکا ہے جس پر مغرب سمیت تمام دنیا کی توجہ مرکوز ہے اور اس کا ‘شائننگ انڈیا’ کا خواب بھی ہے اس لیے اس کے مفاد میں ہے کہ وہ مطمئن ہو جائے کہ پاکستان کی طرف سے اسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

‘میرے خیال میں انڈیا کو سفارتی طریقے سے سمجھایا گیا ہے کہ بہت ہو چکا۔ اور انڈیا کی پاکستان کے حوالے سے دکھاوے کی پالیسی مختلف ہے اور بیک ڈور پالیسی کچھ اور ہے۔

‘پاکستان نے خود کو بہت تبدیل بھی کیا ہے۔ انڈیا کا مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے اور پاکستان ایک عرصے سے وہی کر رہا ہے۔’

ڈاکٹر الحان نیاز کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے حالیہ اشاروں کے باوجود اس وقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان سنجیدہ بات چیت کا عمل بحال ہونے کی زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے۔ وہ اس کی دو وجوہات بتاتے ہیں۔

‘پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایسے مسائل پر بات چیت کے لیے پہلے سے فورم موجود ہیں جیسا کہ دونوں ملکوں کے سیکریٹری خارجہ یا فوج کی سطح پر ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ملتے اور مسائل کے حل کے لیے بات چیت بھی کرتے رہتے ہیں۔ مسئلہ بنیادی مسائل کے حل کا ہے۔’

دوسرا تدابیری مسئلہ ہے۔ پاکستان میں جلد نئے انتحابات ہونے جا رہے ہیں۔ جو بھی نئی حکومت آئے گی اس حوالے سے اس کا ردِ عمل کیا ہو گا یہ دیکھنے کا انتظار کرنا ہو گا۔

کیا کوریا کا ماڈل کارگر ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر الحان نیاز کی نظر میں پاکستان اور انڈیا کے مسئلے پر کوریا کی مثال ‘انتہائی کمزور مماثلت ہے۔ دونوں خطوں کی تاریخ مختلف ہے۔ جزیرہ نما کوریا میں جو ہوا وہ سرد جنگ کا نتیجہ تھا اور پھر دنیا کی بڑی طاقتوں سمیت سب نے اس معاملے کو پگھلانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہو سکی۔

‘کوریا میں دونوں اطراف کے سربراہان کے درمیان حالیہ ملاقات فوٹو کھنچوانے کا اچھا موقع تھا۔ ایسا پاکستان اور انڈیا کےدرمیان بھی ہوا تھا جب وزیرِ اعظم نریندر مودی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پر ان کے گھر پہنچ گے تھے۔ تاہم فوٹوگرافی سے مسائل کا حل نہیں نکلتا۔’

ان کا کہنا تھا کہ مسائل اس وقت حل ہوں گے جب دونوں اطراف میں سیاسی عزم ہو کہ اب برصغیر میں ہم نے امن میں کام کرنا ہے۔ اور وہ سٹریٹیجک فیصلہ پاکستان اور انڈیا دونوں میں سے ابھی تک کسی نے نہیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp