ماں کا لاڈلا اور خلائی مخلوق


رانا ثنا اللہ نے سیاست میں وہی کچھ کردکھایا ہے جو تھیٹر میں طارق ٹیڈی نے کیا۔ طارق ٹیڈی پر الزام ہے کہ اس نے پنجاب کے تھیٹر میں پھکڑ پن شامل کردیا تھا جس سے لوگوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ڈرامہ دیکھنا بند کردیا اور اسٹیج ڈرامے کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی میں نون لیگی لیڈروں کی غیر شائستگی کے خلاف متفقہ قرارداد پیش کرکے اس ناپسندیدہ عمل پر ردعمل ظاہر کردیاگیاہے۔ 26اپریل کو لاہور سے نیویارک روانہ ہوا۔ ابوظہبی پہنچنے پر امریکی امیگریشن کے لئے ویسی ہی جامہ تلاشی ہوئی جیسی حال ہی میں پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ہوئی تھی۔ وزیر اعظم عباسی کی تلاشی کے حوالے سے ایک عدد وڈیو کلپ عمران خان نے لاہور منٹو پارک میں اپنے 29 اپریل کے جلسے میں بھی دکھایا ہے۔ کپتان نے ویڈیو کلپ میں دکھایا کہ امریکی صدرجان کینیڈی اپنے حلیف پاکستانی صدر جنرل ایوب خان کو ایئر پورٹ پر ویل کم کہہ رہے ہیں۔ ایک دوسری جھلک میں امریکی صدر ایوب خان کو پورے پروٹوکول کے ساتھ اوپن کار میں وائٹ ہائوس لے جارہے ہیں۔ عمران خان کے نزدیک وزیر اعظم عباسی کی امریکی امیگریشن کے لئے جامہ تلاشی ہمارے قومی وقار کے منہ پر ایک طمانچہ ہے اور 60کی دہائی میں جنرل ایوب خان کا پروٹوکول پاکستان کے قومی تشخص اور غیرت کے سر پر تاج کی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ خاں صاحب ہمارے سابق فوجی صدر کے استقبال اور وائٹ ہاوس میں مہمان بننے کے واقعہ پر نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجودآج بھی تفاخرانہ احساس سے مسحور ہیں۔

خاں صاحب کے بارے میں میری نیک تمنائیں ہیں لیکن انہیں یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اسی اوپن ایئر ڈرائیو کے بعد امریکہ کو بڈھ بیر میں فوجی اڈے فراہم کرکے ہم نے سوویت یونین اور امریکہ کے مابین لڑی جانے والی ہر قسم کی جنگ میں اپنے آپ کو امریکہ کا ’’ تاحیات فرنٹ لائن اتحادی ‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ بھی تفریق کرنی چاہیے کہ وزیر اعظم کی جامہ تلاشی کرپشن سے زیادہ پاکستان سے جڑے دہشت گردی کے مبینہ الزام اور سیکورٹی کے معاملات سے ہے۔ خاں صاحب نے منٹو پارک کے جلسے میں یہ تاثر دیا کہ ان کے نزدیک امریکہ میں کھلی چھت والی گاڑی کا پروٹوکول اورسویلین وزیر اعظم کی جامہ تلاشی جیسے ’’تاریخی واقعات ‘‘ سپر پاور سے تعلقات اور عالمی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات قرار دئیے جانے چاہئیں۔ 1985 کا زمانہ یاد کیجئے جب امریکی صدر رونالڈ ریگن نے وائٹ ہائوس کے دروازے پر کھڑے ہوکر طالبان کو خوش آمدید کہا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب طالبان کی بھی جامہ تلاشی نہیں ہوئی تھی بلکہ ر یگن نے کہا تھا کہ طالبان امریکہ کے بانیوں جیسے عظیم المرتبہ لوگ ہیں۔ امریکہ کا یہ تاریخی اور انتہائی دوغلا رویہ ہمارے سامنے ہے لہذا عمران خان ’ ’دو نہیں، ایک پاکستان ‘‘ کی تعمیر کرتے ہوئے امریکہ سے پاکستانی سربراہان مملکت کے لئے کھلی چھت مارکہ پروٹوکول کی بجائے سیاسی اورمعاشی آزادی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی خارجہ پالیسی وضع کرنے کی یقین دہانی کرائیں جو پاکستان کے عوام کو ایک خوشحال اور پرامن مستقبل کی نوید فراہم کرے۔

نیویارک میں عمران خان کا خطاب سننے کا اہتمام ایک پاکستانی ریستوران میں تھا جہاں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ٹی وی پر عمران خان کا گرما گرم خطاب جاری تھا اور اُدھر ہریسے، بریانی، بھنڈی گوشت اور مٹن قورمہ کے ساتھ ساتھ گرم گرم پراٹھے معدے کو گرما رہے تھے۔ خاں صاحب کے خطاب کے بعد عرفان میر، چوہدری نثار، میرزا خاور بیگ اور سینئر صحافی محسن ظہیر سمیت دیگر کے ساتھ اتنی ہی طویل نشست ہوئی جتنی تقریر لمبی تھی۔ عرفان میرکا کہنا تھا کہ عمران خان نرگسیت کا شکار ہیں وہ ہمیشہ اپنے رفاہی کارنامے گنواتے رہتے ہیں۔ کینسر اسپتال کی تعمیر بلاشبہ نیک اور اعلیٰ عمل ہے لیکن خاں صاحب یہ بتائیں کہ کے پی میں ان کی حکومت ہے انہوں نے کیا اس صوبے میں نیویارک اور واشنگٹن جیسی ترقی کرلی ہے؟ چوہدری نثار بھی عرفان میر کے ہم خیال تھے جبکہ میرزا خاوربیگ سمیت وہاں موجود درجنوں افراد کا کہنا تھاکہ عمران خان پاکستان کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات دلاکر ایک نئے پاکستان کی تعمیر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کی اجازت مل جائے تو یہ پی ٹی آئی کیلئے لاہور کا حلقہ 120 ثابت ہوگا۔

خواجہ آصف کی نااہلی پر بھی نیویارک میں بحث زوروں پر ہے۔ خواجہ صاحب دبئی کی انٹرنیشنل مکنیکل انجینئرنگ کمپنی سے 16لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کررہے تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ مذکورہ کمپنی کے شیئرز ہولڈرز ہیں باقی افراد پاکستان سے ہیں؟ اس پر خواجہ آصف نے کہاکہ وہ دبئی اور لبنان سے ہیں اور ان سے میرا بھائیوں سے بھی زیادہ قریبی رشتہ ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ دنیا میں سب سے قریبی معاشی رشتہ ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ شخص یا رشتہ آپ کے لئے سب سے اہم ہوتا ہے جس سے آپ کا معاشی مفاد وابستہ ہو۔ میاں نوازشریف کے بعد خواجہ آصف کی نا اہلی نون لیگ کیلئے ایسے ہی ہے جیسے بھٹی پکچر کی فلم سے اسد بخاری یا جگی ملک کو نکال دیاجائے۔ اُدھر آصف زرداری نے انکشاف کیاہے کہ’ ’اینٹ سے اینٹ بجانے اور بلے کے دودھ پینے والے بیانات نوازشریف کے بہکاوے پر دئیے تھے، ہم سے ناراضی کرا کر نوازشریف نے خود اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیا تھا‘‘۔ حامد میر کو دئیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے بھی کہا ہے کہ نوازشریف کو فوج نے پالا اور 2013 کے الیکشن میں بھی مدد کی۔ پاکستان کی سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی سیاست کا ڈی این اے پیپلز پارٹی پر ڈھائی گئی افتاد اور آلام سے چنا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کو جتنا دبایا گیا نون لیگ کے غبارے میں اتنی ہی ہوا بھرتی گئی۔ پاکستان کا مقدر ہے کہ یہاں ہمیشہ توڑ پھوڑ اورجمع تفریق کا کھیل جاری رہاہے۔

اب ایم کیوایم اور نون لیگ کے جسم وجاں کے حصے بخرے کئے جارہے ہیں۔ جسد ِخاکی سے نئی سیاسی کلوننگ اور من چاہی سیاسی افزائش نسل کی جاتی رہی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ہر آرمی چیف فوج پر اپنا اثر رکھتا ہے ان کے نزدیک جنرل باجوہ جمہوریت پسند ہیں۔ نوازشریف چہرے پر ایک مسکراہٹ لاتے ہوئے بیان کررہے ہیں کہ۔ جلسہ لہور دا، مجمع پشور دا تے ایجنڈا کسے ہوردا (جلسہ لاہور کا، مجمع پشاور کا اور ایجنڈا کسی اور کا) وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران اور زرداری کوئی شے نہیں ان کا مقا بلہ خلائی مخلوق سے ہے۔ سادا الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران اور زرداری کو عوامی حمایت حاصل نہیں انہیں اسٹیبلشمنٹ کا سامنا ہے۔ عمران کہتے ہیں کہ نوازشریف کا اصل شکوہ یہ ہے کہ فوج اب ان کے پیچھے نہیں ہے اور جنرل باجوہ کی قیادت میں فوج صرف اپنا آئینی کردار ادا کررہی ہے دوسری طرف نوازشریف یہ تسلیم نہیں کرتے۔ نوازشریف، مریم اور نون لیگی عمران کو لاڈلا قراردیتے ہیں جبکہ عمران خان نے منٹو پارک میں کہاہے کہ وہ فوج کے نہیں اپنی والدہ شوکت خانم مرحومہ کے لاڈلے رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست اور اقتدار کے سانپ سیڑھی کھیل پرنگاہ ڈالیں تو لاڈلے بدلتے بھی رہے ہیں۔ ایک پنجابی گیت ہے ’’ماں دا لاڈلا وگڑ گیا جے‘‘(ماں کا لاڈلا بگڑ گیا ہے) لاڈلاماں کا ہویا نظام کا وہ آسانی کے ساتھ جائز اور ناجائز سہولتوں کا طلب گار ہوتا ہے۔ نوازشریف ایک عرصہ تک اس نظام کے لاڈلے رہے ہیں لیکن اب وہ عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ نوازشریف کو تین الیکشن کیوں جتوائے گئے؟ انہیں زبردستی عوام پر کیوں مسلط کیا گیا؟ کیا اب یہ سلسلہ تھم گیا ہے؟ دیکھنا پڑے گا کہ ہمیشہ کی طرح عوام کے حق رائے دہی پر کوئی اثر انداز ہوتا ہے یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).