بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ۔۔۔۔ معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی


اس خطۂ ارض پر واقع ہر ملک اپنی جگہ منفرد ہے۔ محلِ وقوع، موسم اور مقدرتی وسائل وغیرہ میں تنوع کی وجہ سے کچھ ملک جہاں کچھ خاص چیزوں کو بنانے یا ان کی پیداوارمیں مہارت رکھتے ہیں وہیں کچھ اور اشیاء کے لئے وہ دوسرے ممالک کے محتاج ہوتے ہیں، یوں وہ ایک دوسرے سے معاشی اور معاشرتی طور پر منسلک ہوجاتے ہیں۔ بارٹر سسٹم سے شروع ہونے والی معاشی اور سماجی سرگرمیاں اب باقاعدہ تجارتی قوانین کے تحت انجام دی جاتیں ہیں جن کے تحت ہر دو ممالک اپنے باہمی روابط کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر اپنے ہاں پائی یا بنائی جانے والی اشیاء دوسرے ملکوں میں فروخت کرتے ہیں (یعنی برآمد) اور اپنی ضرورت کی اشیاء دوسرے ممالک سے خرید لیتے ہیں (یعنی درآمد کرتے ہیں)۔ درآمدات اور برآمدات کاسہی تناسب میں ہونا معاشی خوشحالی کاایک اہم پیرامیٹر ہے۔ برآمدات جتنی بہتر ہونگی اتنا ہی وہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہوگا جبکہ اگر کسی ملک کی درآمدات کی مالیت برآمدات کی مالیت سے زیادہ ہوں تو اسی فرق کو تجارتی خسارہ کہتے ہیں اور مسلسل تجارتی خسارہ کسی بھی ملک کی معیشت کی غیر مستحکم اور پریشان کن صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔

اسی بات کے نتاظر میں اگر ہم 1990 سے پاکستان کے تجارتی خسارے کو دیکھیں تو 2004 تک ہمارا تجارتی خسارہ کافی کم رہا جسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہماری درآمدات اگرچہ برآمدات سے زائد تھیں مگر انکا مجموعی حجم کوئی بہت بڑا نہیں تھا جسکی وجہ سے فرق بھی کم تھا۔ تب تک لوگوں کا آمدنی لیول کم تھا، موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی تعداد کم تھی تھی اس لیے ہمیں تیل بھی کم امپورٹ کرنا پڑتا تھا، صنعتی ترقی کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے مشینری کی درامدات بھی کم تھی تو دوسری طرف ہماری زرعی اجناس بالخصوص آم، کنو، کپاس اور اس سے بننے والے کپڑے، کھیلوں کے سامان ، الیکٹرونکس اور چمڑے کی اشیاء کی برآمدات کی صورت میں غیر ملکی زرمبادلہ کما لیتے تھے۔ 2004 سے 2008 تک ہمارے تجارتی خسارے میں بڑھوتری کا رجحان رہا۔ اس دوران قریباً ایک ارب کا تجارتی سرپلس، 18.42 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے میں تبدیل ہوا۔ ان سالوں میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں آئیں، موبائل فون اور انٹرنیٹ بہت عام ہوا، سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ یوں مشینری اور تیل دونوں کی درآمدات میں اضافے کی وجہ سے یہ 14.34 ارب ڈالر سے 39.48 ارب ڈالر تک بڑھیں جبکہ برآمدات میں 15.35 ارب سے 21.06 ارب کی نسبتاً معمولی بہتری آئی۔

اسکے بعد 2008 سے 2011 تک پاکستان کے تجارتے خسارے میں کمی دیکھی گئی۔ اس دوران ہماری درآمدات ابتدائی کمی اور بعد میں اضافے کے بعد 40.52 ارب ڈالر تک بڑھیں جبکہ برآمدات مسلسل بڑھتے ہوئے 29.83 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ اگلے دوسال ہماری درآمدات تیزی اور برآمدات قدرے سست روی سے بڑھیں جسکے نتیجے میں 2013 تک درآمدات 46.37 ارب ڈالر جبکہ برآمدات 30.70 ارب ڈالر اور انکا فرق یعنی تجارتی خسارہ قریباً 15.67 ارب ڈالر تک پہنچا۔ یوں زرداری دور میں تجارتی خسارے میں قریباً پونے دو ارب کی کمی ہوئی۔

2013 سے لیکر اب تک کا وقت پاکستان میں تجارتی نقطہ نظر سے تاریخ کا بدترین دور رہا۔ 2015 میں تجارتی خسارہ 17.44 ارب ڈالر جبکہ 2016 میں 44.63 ارب ڈالر کی درآمدات اور 25.48 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ ہمارا تجارتی خسارہ بڑھ کر 19.15 ارب ڈالر ہوگیا۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تاریخی طور پر کم تھیں جسکی وجہ سے ہمارےامپورٹ بل کے ایک بڑے حصے میں خاطر خواہ بچت ہوئی مگرحیرت انگیز طور پر تجارتی خسارے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، حکومت اسکی وجہ سی پیک کی وجہ سے مشینری کی درآمد بتاتی ہے مگر ڈیٹا کو دیکھیں تو پٹرولیم منصوعات کی درآمد کی مد میں حکومت کو جتنی بچت ہوئی ، مشینری کی درآمد ی مالیت میں اس سے آدھا اضافہ بھی نہیں ہوا۔ اسکی اصل وجہ ہماری برآمدات کا گرنا ہے۔ مزید آگے چلیں تو 2017 میں ہوش ربا اضافے کے ساتھ تجارتی خسارہ 30.86ارب ڈالر کی انتہائی بلند سطح تک جا پہنچا۔ اس سال ہم نے 58.32 ارب ڈالر کی درآمدات جبکہ 27.46 ارب ڈالر کی برآمدات کیں۔ موجودہ مالی سال میں مارچ تک 22.13 ارب ڈالر کی برآمدات اور 48.28 ارب ڈالر کی درآمدات کے ساتھ، 26.15 ارب ڈالر کا خسارہ کر چکے ہیں جو کہ پچھلے مالی سال کے اسی دورانیے سے 5.19 ارب ڈالر زائد ہے، جس سے اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ اس سال کا تجارتی خسارہ پچھلے سال کا ریکارڈ بھی توڑ دے۔

یہ تو تھی ملکی معیشت کے ایک اہم حصے، تجارت کی حقیقی اور تکلیف دہ صورتحال، اب آتے ہیں وجوہات کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلیل مدتی وجوہات کو دیکھیں تو ڈار صاحب نے سیاسی واہ واہ کے چکر میں روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بلند رکھا جس سے برآمدات کو خاصا نقصان پہنچا۔ ابتدائی سال کے دوران پارلیمان میں اسد عمر نے سٹیٹ بنک کے اکنامک ڈویزن کا حوالہ دیکر اور کو شیخ رشید نے اپنے انداز میں بتایا کہ ایکسچیج ریٹ بہت اوپر جائے گا، مگر ڈار صاحب نے ضد لگا کر اسے تو کنڑول کرلیا لیکن اسکی قیمت ہماری معیشت کو ابھی تک دینا پڑ رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے غیر ملکی زرمبالہ کےذخائر کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کےلیے برآمد کنندگان کو ٹیکس واپسی کے حق سے محروم رکھا ، تو دوسری طرف ایکسپورٹ پرموشن بیورو نے نئی منڈیاں ڈھونڈنے میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھائی، نہ ہماری انڈسٹری نے ویلیو ایڈیشن کی طرف زیادہ توجہ دی۔ ملکی میں صنعتی شعبے میں ریسرچ کا حال بہت پتلا ہے اور سرکاری سطح پر قائم تحقیقی اداروں کا سٹرکچر اتنا فضول ہے کہ وہاں سے اچھی تحقیق کاآنا قریب قریب ناممکن ہے۔

طویل مدتی وجوہات پر نظر دوڑائیں تو ہماری تعلیمی نظام بہت فرسودہ ہے جو سکول کی سطح سے ہی جستجو و تحقیق کا گلہ گھونٹ کے طالب علم کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبا دیتاہے، نتیجتاً صنعتی پھیلاؤ میں نئی ایجادات سےکا کردار بہت ہی محدود ہوتا ہے۔ اسی لیے وسائل والے والدین بچوں کے لیے پرائیویٹ سکولز کا انتخاب کرتے ہیں جن کے حالات اگرچہ آئیڈیل نہیں مگر قدرے بہتر ضرور ہیں۔اسکے لیے ہمیں اپنے سرکاری تعلیمی اداروں پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، انکا ماحول اور سلیبس بہتر بنانا ہوگا، سائنسی سہولیات دینا ہونگی ، اچھے اساتذہ لانے ہونگے اور انہیں وہ ماحول دینا ہوگا جس سے انکی صلاحتیں نکھر سکیں جوکہ مستقبل میں تحقیق کی صورت میں انڈسٹری کے کام آسکیں، انڈسٹری اکیڈمیا لنک کو مربوط اور مضبوط کرنا ہوگا، کاروبار کا آغاز کرنا آسان بنانا ہوگا، خاص کر بجلی، پانی، گیس، فون اور دیگر ضروری سہولیات کے حصول کو ون ونڈو آپریشن کے ذریعےاور بندرگاہ کے آپریشنز کو سہل اور تیز رفتار کرنا ہوگا۔ اسی طرح مارکیٹ کو اجارہ دارانہ (Monopoly) نظم سے مقابلے کے نظم میں لانا بھی بے حد ضروری ہےتاکہ مقابلے کی صورت میں بہتر سے بہتر پراڈکٹس سامنے آسکیں جس سے ہم عالمی منڈی میں پیش کرکے قیمتی زرمبادلہ کماسکیں۔ اگر یہ انتظامات نہ کئے گئے توبجٹ کے خسارے کے ساتھ ساتھ اس بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو پُر کرنے کےلیے مزید قرضے لینا ہونگے، ملک میں شرح سود اور ٹیکسز کی شرح مزید بڑھے گی جس سے صنعتی ترقی کی رفتار اور کم ہوگی، کرنسی مزید ڈی ویلیو ہوگی اور بے روزگاری و مہنگائی کا طوفان آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).