شہبازشریف وزارت عظمی کے خواب دیکھنے لگے


جب سے وڈے میاں صاحب سیاسی شطرنج سے آوٹ کلاس کر دیے گئے ہیں۔ تب سے سیاسی افق پہ چھوٹے میاں صاحب اک نئی آن بان سے جلوہ گر ہوکر وزارت عظمی کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ خواب دیکھنے میں ویسے کوئی برا‏‏ئی تو نہیں۔ نہ یہ کسی کی جاگیر ہیں اور نہ ہی شجر ممنوعہ۔ ہاں البتہ تخت طاوس کے خواب کی تعبیر اپنے حق میں پانے کیل۔ ئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اور سیانے تو ناقابل یقین حد تک اس کے بارے میں قدامت پسند، دقیانوسی اور بدشگون ‌ثابت ہوئے ہیں۔ جیسے اسے پانے کے لئے خاکی ملنگ کا دست راست ہونا لازمی اور دست شفقت کا فیصلہ تو بہرحال اٹل ہی ہوتا ہے۔ اور مستانہ دیوانہ کے مطابق تو بعضوں کو مریدی پکی کرنے کے لئے چلہ بھی کاٹنا پڑتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب، کیوںکہ ہماراعلم سیاست تو ہندسوں کے صفر سے باہم ملتاجلتا ہے۔

قرین قیاس یہی ہے۔ کہ تخت طاوس کے لئے شہبازشریف کی تگ ودو غالبا عرصہ دراز سے جاری و ساری ہوگی۔ البتہ ہم کرداروں کی جانچ پڑتال کے بارے میں تھوڑے وہمی سے واقع ہوئے ہیں۔ ویسے بھی ہم روزگارہائے فانی میں حسن ظن سے گزارہ کرتے ہیں۔ تو ہم ہنگامی اور ترجیحی بنیادوں پر نیک گماں رکھنے کے قائل اوردشنام طرازی کا سامنے کیے بغیر بقا‏ئمی ہوش و حواس یہ اعلان کرنے میں کو‏ئی عار نہیں سمجھتے کہ ہم کسی بھی وقت اپنے الفاظ واپس لینے کو تیارہیں۔ بالفاظ دیگر ہم اپنے محدود علم کی بنیاد پرایسے مباح، (اوہ سوری)بلکہ ایسے لغو کاموں کو وقت کا ضیاع، جو‏ئے شیرلانے اورشیرکے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

ہمارے بے ربط تخیل کا گھوڑا عمومامنتشراور عجیب و غریب خیالات کے صحرامیں بگٹٹ بھاگتا ہے۔ یہ ہمارے لئے بحرحال راز ہی رہاہے کہ آیسا آخر کیوں ہے؟ یقینا ہم نے اپنے طور پر لگام ڈالنے کی بھرپور سعی کی، لیکن بے سود۔ تو جناب اس بار اس نے جاسوسی ناولوں کے کردار کی طرح انکشاف کیا، کہ عقیدت مندوں(جس کو دل جلے (شاید)رقیب خواتین/حضرات خوشامدی گردانتے ہیں)نے غالباچھوٹے میاں صاحب کو اورنگ زیب عالمگیر کی جانشینی کی داستان طلسم ہوشربا سنا کے کوئی پٹی ضرور پڑھائی ہوگی۔ ہم جیسے کوڑھ مغزوں کی تھوڑی اتنی جلدی بات پلے پڑتی ہے۔ کہ انٹر تک رٹا لگالگا کے ہی پاس ہوئے تھے۔ اوپرسے سرکاری اردو قاعدے (پرائیوٹ والے جسے عمررفتہ کی یاداورکاررائیگاں سمجھتے ہیں غالبا) میں اورنگ زیب عالمگیر کے تقوی عالیشان کے روح پرورنقوش، جو برصغیر کے شہنشاہ ہوتے ہوئے اتنے سادہ مزاج کہ ٹوپی بننے اور جلد بندی کی کما‏ئی سے گذارہ کرتے تھے۔ سبحان اللہ!قربان جاؤں ایسی ہستی کے۔ یکایک میرے شاطراورحرص مند دنیاوی دماغ میں شاطرانہ خیال نے زور سے جھپٹا مارا، ٹوپی بیچنے کا ڈھابا یقینا انارکلی بازار لاہور میں لگایا ہوگا؟ اور پھر شیطانی خیالات کی لڑی پروتی گئی اور ایسا خمار چھایا کہ ہم منظورپشتون، بے غرض، تارک دنیا اور منصورجیسی ہستی کے ساتھ پھولوں کے شہر پشاور میں مزاری ٹوپی کے ڈھابہ نما سپرسٹور کے شراکتی کاروبار کے خواب دیکھنے لگے۔ یہ خیال ہمارے کھوکھلے من کو اتنا بھایا کہ ہم اپنے اپ کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے اور محظوظ ہوتے ہوئے زور سے اچلے۔
”واٹ این آئیڈیا سر جی ”

تحقیق کے شمع فروزاں کی روشنی سے ہم بھی مستفید ہونے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ پر یہ کیا، لاحول ولا قوۃ، فرنگی نے اورنگزیب کی شان میں ایسی مغلضات بکی ہیں، کہ ہم کتاب پٹخے بغیر نہ رہ سکے۔ استغفراللہ، فرنگی تعصب میں چریا ہوگیا ہے شاید! اب پشتونوں کے بابا خوشحال خان خٹک کی باری آئی۔ وہی سوالیہ نشان!
اورنگ زیب بی دلیلہ ( اورنگ زیب بے دلیل )
پہ ظاھر باطن علیلہ (ظاہر باطن سے علیل)
پہ تسبو کښی د ی بلا دہ (تیرے تسبیح کے دانوں میں چھپا شر(ریا))
ھی توبہ ستا لہ تھلیلہ ( اور توبہ تیری تھلیل)

اللہ جانے یہ مورخوں اور شاعروں کو اورنگ زیب سے کیا بیر تھا؟ دارا کے عاشق ہوں گے شاید! پرہم جیسے کوڑھ مغزوں کو ایسی پہیلیاں بوجھنے سے تو قاصر ہی سمجھیں جناب۔ ہم تھوڑی ایسی دقیانوسی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ بھئی ہم تو اورنگزیب کے صادق اور آمین ہونے کی جانچ پڑتال آئین کے آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ کی روشنی میں کرکے ہی دم لیں گے۔

جب سے چھوٹے میاں صاحب وزارت عظمی کے تجربے کی غرض سے پشاور گئے ہیں۔ تب سے ہم امریکہ اور روس کی خلانوردی کے جائے وقو ع کے بارے میں شدید شک وشبے کا شکار ہو‏ئے ہیں۔ اور چھٹی حس کی سرخ سوئی مسلسل اس نقطے پہ اٹکی ہوئی ہے کہ یقینا یہ تجربہ دریائے آمو یا آباسین کے کنارے واقع ہوا تھا۔ اور غالبا اسی لئے امریکہ اور روس نے مل کر پشتونوں کو راز افشاء کرنے سے باز رکھنے کے لئے چڑھائی کی تھی۔ دوسری طرف خیبر پشتونخوا پولیس کی شریف کے ساتھ غیرمتوقع شریفانہ رویہ سے یا تو اس کے شریف بننے یا پرویز خٹک کی دعا رائیگاں جانے کے آثار مل رہے ہیں، واللہ اعلم بالصواب۔ بحرحال ہم فقیر لوگوں کو کیا، یہ بڑے لوگوں کے ٹھاٹ باٹ ہیں۔ تو جناب پشاور میں باچاخان کے پیروکاروں نے شریف کو ایسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کہ عقیدت مند عش عش کر اٹھے۔ ویسے اڑتی اڑتی خبر ہے۔ کہ کبھی چھوٹے میاں صاحب نے جوش خطابت میں شہرہ آفاق نعرے جیسابیاں داغ دیا تھا۔ ”طالبان ہمارے بھا‏ئی ہیں“اور میاں صاحبان اور مسلم لیگ(ن) سے منسوب کوئی ”جاگ پنجابی جاگ“ کا نعرہ لگا تھا۔ اور غالبا طالبان ہی نے باچاخان کے سینکڑوں پیروکاروں کو شہید کر دیا تھا۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظ میرا (اختر انصاری)

پر اک بات کوڑھ مغز دماغ کے پلے نہیں پڑی کہ آخر یہ قوم پرست رہنما میاں صاحباں کی جھولی میں پکے آم کی طرح گرتے کیوں ہیں؟ ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ” کوئی چڑیل ہوگی شاید!
پر چھٹی حس نے اسے میڈیا کی کارستانی سمجھا۔ میڈیا چائے والے کو راتوں رات سپرسٹار اورحقوق نسواں کی شرارتوں سے بڑھتے ہوئے زن مرد کے فاصلے مٹا کر(فرق بتائیں پزل) جیسی تصویربناسکتاہے۔ تو میاں صاحب کے بیاں کو توڑ مروڑ کراور الطاف حسین صاحب کے بیاں کو سیاق و سباق سے ہٹ کرپیش نہیں کرسکتاکیا؟ غالبا انھوں نے “طیب اردگاں ہمارے بھائی ہیں“کہاہوگا۔ یہ بھی تو ہو سکتاہے۔ کہ مائک گرانے کی صورت میں آواز کی پچ، گمک اورفریکوئنسی تہ وبالاہونے سے الفاظ یہ شکل اختیارکرگئے ہوں گے۔ مزید دورکی کوڑی ملا‌ئیں تو غالبامائک کی فریکوئنسی لمحے کے لئے سوات کے ملا ایف ایم ریڈیوکے ہوشربانشریات کی فریکوئنسی کی زد میں آئی ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اوردوسرا نعرہ غالبا“جھاگ پنج آبی جھاگ‘لگاہوگا۔ اور یہ پانچ دریاؤں کی سرزمین سے کوئی شکوہ ٹائپ اپیل ہوگی شاید!

ہمارا بے ربط تخیل بڑے زور شور سے ہمیں قائل کرنے کے چکر میں ہے۔ کہ مسلم لیگ (ن)، چند قوم پرست، ایم ایم اے حکومت جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اپوزیشن کی جانب رواں دواں ہیں۔ کیوںکہ چھوٹے میاں صاحب کی صورت میں تو ایسا ہی لگتا ہے۔
اک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز

جیالوں، بالخصوص تبدیلی کے جوشیلوں سے جاں کی امان پاؤں(پھربھی خاکم بدہن)تو ظن غالب یہی ہے۔ کہ چھوٹے میاں صاحب کا تجربہ کامیابی کی جانب گامزن ہے۔ کیوںکہ پشتون سرزمیں پرہر ایرے غیرے کا تجربہ کامیاب ہوا ہے۔ اور میاں صاحباں توماشاءاللہ۔
“بڑے میاں بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ ”

ہم کوڑھ مغز ضرور ہیں، پرہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے والوں میں سے ہرگزنہیں۔ کیونکہ بچپن میں علام اقبال(رح)سے شکوہ ساسنا تھا۔
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

تو جناب ہم پہ اک نادر آئیڈیا(تھوڑا مایوس کن ہے بہرحال)وارد ہوا۔ کیوں نہ بلاول بھٹو زرداری اورعمران خان مل کر الیکشن لڑیں۔ اور عمران خان ہنگ پارلیمنٹ والی بات بھول جائے۔ خدا گواہ ہے، کہ میرا ہرگز عمران خان پہ تنقید کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، بلکہ خیرخواہی مقصود ہے۔ خان صاحب پہ تنقید تو آبیل مجھے مار اور اپنے پا‎ؤں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ پھر ‎شیرو کے نکالنے کے بعد کسی کو پاگل کتے نے کاٹا ہوگا، جس سے یہ نازیبا حرکت سرزد ہوگی۔
ساغرصدیقی اور دیوانہ؟ چل ہٹ جھوٹا کہیں کا
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).