پروفیسر اور انجمن کی محبت


این جی او یعنی نان گورنمینٹل آرگنائزیشن یہ وہ تنظیمیں ہیں جو فلاح و بہبود کے مختلف میدانوں میں کام کرتی ہیں جیسے صحت تعلیم عورتوں بچوں کے حقوق وغیرہ۔

یہ پوری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں ہیں ان میں کافی ایکٹو تو کچھ اتنی سرگرم نہیں ہوتیں جن کو ڈارمنٹ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں این جی او کو انجمن کہا جاتا ہے۔ میرے دل کی انجمن میں تیرے دم سے روشنی ہے انجمن نام کی ہیروئین پنجابی فلموں کی مشہور ترین ہیروئین رہی ہیں ایک دوسری غیر معروف اداکارہ انجمن سندھی فلم سورٹھ میں ہیروئین کے طور پر آئیں تھیں جسے اب کوئی نہیں جانتا۔ اس دفعہ جب میں پروفیسر مغز مار کے گھر پہنچی تو پروفیسر کی بیوی متاری کو ایک دوسری عورت سے مشغول گفتگو پایا۔ متاری اتنی مشغول تھی کہ میرے سلام کے جواب میں ایک چھچھلتی ہوئی نگاہ ڈالی اور سرکے اشارے سے ہی جواب دیا۔

ان دونوں کی باتوں سے میں نے محسوس کیا کہ اس کچہری کے کافی دور پہلے بھی چل چکے ہیں اب یہ آخری مرحلہ طے کررہی ہے۔ دوسری عورت کے بارے میں مجھے پتا لگا کہ وہ پڑوس میں کھلنے والنے نئے کے جی نرسری کے اسکول کی ماسی پٹے والی ہے۔ باتوں سے ہی پتا لگا کہ ماسی اسکول کے لئے یہاں برف لینے آتی ہے جس کی وجہ سے ان کی دوستی بہت بڑھ کے پکی ہوچکی ہے۔ میں کافی دیر تک گفتگو سننے کے باوجود سمجھ نہیں پارہی تھی کہ آخر وہ کس چیز کے بارے میں بولے جارہی ہیں کافی دیر بعد سمجھی کہ یہ لوگ آئین بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔

بحث چل رہی تھی کہ آئین میں کیا کیا شق ڈالنی چاہیے گفتگو میں متاری کا حصہ ہاں یا ناں تک محدود تھا معلومات کی پٹاری یا علم کا خزانہ تو سارا ماسی پٹے والی کے پاس تھا۔ دوران گفتگو ماسی پٹے والے نے پروفیسر کی طرف اشارہ کیا کہ ہم صدر ان کو بنائیں گے یہ دیکھ کے تو میں چکرا گئی ان لوگوں نے کوئی آزادی کی تحریک چلا کے ملک بھی بنالیا تھا آئین تک بن چکا تھا اور صدر تک چنا گیا تھا آخر میں کس دنیا میں گم تھی کہ کچھ بھی پتا نہیں چلا تھا آخر ان لوگوں نے سیاست میں کب قدم رکھا تھا۔ پہلے بایاں یا دایاں قدم رکھا تھا یہ سب کچھ اتنی آسانی سے کیسے ہوگیا تھا اگر یہ سب کچھ اتناہی سہل ہے تو میرے دل میں وزیر خزانہ بننے کا خیال سر اٹھانے لگا حالات اس ڈگر پر آن پہنچے ہیں کہ پروفیسر جیسا آدمی صدر بننے جارہا ہے یہ بھی ممکنات میں شامل ہوسکتا تھا۔

میں نے پیچھے مڑ کرمستقبل کے صدر کو دیکھا وہ کچن میں کسی قسم کی کوئی خاص صفائی کی مہم میں مصروف دکھائی دیا۔ ماسی پٹے والی سگریٹ پی رہی تھی انہوں نے سگریٹ کی دم انگوٹھے اور پہلی انگلی ملاکے پکڑی پکڑی ہوئی تھی جس سے ان کی شخصیت کی انفرادیت کا پتا لگ رہا تھا سگریٹ کے بارے میں تو میرا یہی خیال تھا کہ یہ ضرور ڈن مل ہی ہوگا۔ کچھ ہی دیر میں پروفیسر توے کو کنڈی سے پکڑتے ہوئے کچن سے نمودار ہوئے تم دونوں مل کر مجھے صدر بنارہی ہو یہ سوچا کہ لوگ کہیں میرے منہ پر توا ملیں تو ے کو میں نے بہت اچھی طرح سے دھو دیا ہے۔ واقعی پروفیسر صاحب نے توے کو خوب اچھی طرح سے دھویا تھا یہی وجہ ہے کہ توے سے ابھی تک پانی ٹپک رہا تھا۔ پروفیسر نے تو یہ بات خالص سنجیدگی سے کہی تھی پر لگتا تھا دونوں خواتین کو ناگوار گزری ہے جو ان کے چہروں سے عیاں تھا۔

اے ہاں ہم نے این جی او کا نام تو سوچاہی نہیں، ماسی پٹے والی نے مسکرا کر کہا او تو یہ این جی او بن رہی تھی بعد میں پتا لگا کہ ماسی پٹے والی اس پوسٹ پر آنے سے پہلے کسی این جی او میں بھی پٹے والی کی طور پر کام کرچکی ہے اور اس کے فوائد کے بارے میں خوب جانتی ہے۔ یہ سارا پروگرام ماسی سیٹ کررہی تھی متاری کا تو کوئی خاص حصہ نہ تھا سوچا میں ہی کوئی نام ڈھونڈوں ان لوگوں نے کچھ نام سوچے تھے اس پر متفق نہیں تھیں۔ ماسی کا خیال تھا این جی او کا نام ایسا ہو کہ جس میں عورتوں، بچوں، جانوروں کے حقوق اور تعلیم صحت ثقافت آجائے یعنی کوئی عالم گیر نام ہونا چاہیے اسی اثنا میں مجھے بھی ذہن میں عالم گیریت کا سنا ہوا سا نام ذہن میں آیا جس میں نہ صرف عورتوں بچوں کے حقوق تعلیم صحت پر سورج چاند ستارے یعنی پوری کائنات سما سکتی تھی میں نے زور سے کہا انجمن عاشقانِ رسول یہ نام بلکل ٹھیک رہے گا۔

ماسی نے ایک ٹھنڈی نگاہ مجھ پر ڈالی اور سنی ان سنی کردی اتنی دیر کی گفتگو میں ماسی پٹے والی اپنی مانگ پر ہاتھ رکھ کر بول چکی تھیے دیکھنا متاری زلزلہ آئے گا یا زلزلہ نہ آیا تو سیلاب آئے گا آخر ہم غریبوں کا بھی خدا ہے۔ اس نے اتنے اعتماد سے کہا تھا کہ متاری کے ساتھ مجھے بھی یقین ہوگیا تھا کہ این جی او بننے کے بعد اللہ کی مہربانی ضرورہوگی یعنی زلزلہ آئے گا یا سیلاب آئے گا۔ میں نے دیکھا کہ پروفیسر کچن کی صفائی مہم سے فارغ ہوکے فرج کی طرف جارہا ہے جہاں سے اس نے کچھ لیا اور ماسی پٹے والی کی طرف بڑھا رومینٹک انداز میں کہنے لگا مائی سویٹ ہارٹ تم افلاطونی دعاغ رکھتی ہو کہ مجھے صدر بنارہی ہو لو منہ کھولو تو منہ میٹھا کروالو اس طرح انہوں نے ہاتھ میں لیا ہوا گلاب جامن اس کے منہ میں ڈال دیا ماسی کا چہرہ دمک اٹھا تھا آنکھوں میں چمک آگئی تھی۔

وہ دلکش انداز میں گہر ی مسکراہٹ سے مسکرائی تو ایک چھپا ہوا ٹوٹا ہوا دانت بھی ظاہر ہوگیا تھا پروفیسر نے اس کا ہاتھ کسی فلمی ہیرو کی طرح پکڑ لیا اور مہدی حسن کی طرح گانے لگا۔ جیون بھر ساتھ نبھائیں گے ہم دونوں۔ یہ سب کچھ تو پتا نہیں کیا ہورہا تھا میری تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا۔ متاری کی بھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کچھ دیر خالی نظروں سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی پھر اچانک اسے سمجھ آگیا وہ صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی دونوں بانہیں پھیلا کے پنجابی فلم بشیرا کی طرح للکار نے لگی۔ مجھے کلاشنکوف لاکے دو۔ وہ مجھ سے مخاطب تھی وہ تو میں نے کبھی آپ کے گھر میں دیکھی ہی نہیں میں نے جوڑے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

مجھے بندوق لاکے دو ماسی پٹے والی کی پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی تھی متاری کی ذات میں زلزلہ آرہا تھا بندوق بھی آپ لوگوں نے خرید کے نہیں رکھی اس دفعہ بھی میرا جواب مایوسی کا مظاہرہ تھا وہ پھر للکاری۔ مجھے چھری لاکے دو پروفیسر نے ایک دم مڑکر جواب دیا وہ آج صبح ہی میں نے تیز کروانے کے لئے بھیجی ہے۔ اس دفعہ للکار کچھ جھینپ لئے تھی ڈوئی بھلا ڈوئی لان دو۔ ڈوئی لاکے دو پروفیسر نے تازہ بہ تازہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی دھو کے رکھی تھی میں بھاگتی ہوئی کچن میں گئی اور ڈوئی لاکے اس کو تھمادی خود اسی اسپیڈ سے بھاگتی ہوئی باہر نکل آئی۔ بعد میں پتا چلا کہ اصل میں پروفیسر صاحب ان دونوں خواتین کی دوستی سے تنگ آ گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).