سمندر پار پاکستانیوں کا ووٹ – سسٹم تو پانچ سال سے تیار ہے


ہمارے اس پیش کردہ نظام کو پوری طرح عمل کرنے کے لئے قوانین میں چند ترامیم کی ضرورت تھی۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے بھی کچھ کام کرنا تھا۔ نادرا نے یہ سافٹ وئیر بنایا تھا اور میں خود لندن اورٹورنٹو سمندر پار پاکستانیوں کے پاس گیا اور انہیں یہ سسٹم دکھایا تھا۔ وہیں ہم نے اس کے لئے کامیاب تجربہ بھی کیا تھا۔

اس سارے سسٹم میں نادرا کا کردار یہ تھا کہ وہ جدید بائیو میٹرک نظام کے ذریعے ووٹر کی شناخت کرتے۔ وزارت خارجہ نے انتخابی حلقے بنانے کے لئے اپنی حکومت اور بیرون ملک حکومتوں سے اجازت لینی تھی۔

جب میں نے 2013 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں یہ سسٹم پیش کیا تو انہوں نے کمرہ عدالت میں ہماری بڑی تعریف کی اور قابلیت کے گن گائے۔ شومئی قسمت کہ ابھی ہم اس داد قابلیت کے نشے میں چور ہی تھے کہ اگلی حکومت کے دبنگ وزیر داخلہ نے نو منتخب وزیر اعظم کو ہماری نا اہلیت اور ناقابلیت کی سمری ارسال کر دی۔ الیکشن میں دھاندلی کی تحقیق کے سلسلے میں عدالتوں کی مدد کرنے کی سنگین غلطی جو کر بیٹھا تھا۔ ریاست کا نوکر تھا، غلاموں کے غلام حکمرانوں کی چاکری منظور نہ تھی، سو حکم عدولی کی پاداش میں دربار سے نکال دیا گیا۔ وہ تو عدالت کا بھلا ہو کہ انہوں نے واپس نوکری پر بھیج کر حکومت کے منہ پر طمانچہ مار دیا۔ خیر یہ کہانی پھر سہی!

2013 کے الیکشن کے بعد حکومت، سیاسی پارٹیاں، نادرا اور الیکشن کمیشن سمندر پار ووٹنگ کے مسئلے پر لمبی تان کے سو گئے۔ دبنگ وزیر داخلہ جن کی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھ سکتی تھی، اسی ناک کے نیچے نادرا بھی اس مسئلے پر لمبی تان کر سوتی رہی۔ اسی دوران سیاسی رہنما اور سیاسی وکیل سادہ لوح سمندر پار پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی پر خوبصورت ملکوں کے سفر، تقریبات، اور شاپنگ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ساتھ ہی وعدہ کرتے رہے کہ انہیں یہ حق 2018 کے الیکشن میں ضرور ملے گا۔ دبنگ وزیر داخلہ ناراض بہو کی مانند اپنی پارٹی اور میڈیا سے جب شکایت کرتےکہ ان کی وزارت کی شاندار کارکردگی کو سراہا نہیں جاتاتو میری آنکھیں بھی غم سے بھیگ جاتیں۔

اگلے الیکشن سے چند ماہ دوری پر سیاسی پارٹیوں کو سمندر پار پاکستانیوں کے چندے کی اہمیت کا ایسے خیال آتا ہے جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آ جائے۔ لہذا ان کے حقوق کی ”باد نسیم“ پھر سے چلنے لگی۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور جسٹس ثاقب نثار نے ہمارے والا چبھتا ہوا سوال کر دیا کہ پانچ سال سے کیوں سو رہے تھے۔ نادرا، الیکشن کمیشن، حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو حکم حاضری ہوا۔ نادرا کو پھر سے تاکید ہوئی کہ سافٹ وئیر تیار کریں۔

نادرا نے پرانی شراب نئی بوتل میں ڈالی اور نیا لیبل لگا کر عدالت میں پیش کر دیا۔ ”نثاران وطن“ خوب جانتے ہیں کہ پرانی شراب کا نشہ نہایت سخت ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم اس نشے میں بھول ہی گئے کہ یہی حل پانچ سال پہلے بھی دیا گیا تھا۔ 2013 اور 2018 کے حل میں فرق یہ ہےکہ 2018 والا حل نادرا کے ڈیٹا بیس کے لئے سیکورٹی رسک ہو سکتا ہے کیونکہ یہ Internet based Solution ہے جبکہ ہمارا Intranet based Solution تھا۔ یہ ایک محفوظ نظام تھا اور انتخابی قوانین کے عین مطابق تھا۔ 2018 کے انٹر نیٹ سالیوشن سے آپ گھر بیٹھے ووٹ تو دے سکتے ہیں لیکن آپ کو اپنی زوجہ، خاوند یا چچا ماموں کو پریذائنڈنگ آفیسر بنانا پڑے گا۔ اگر الیکشن کمیشن اس پر راضی ہو گیا تو الیکشن تو ”چاچے مامے“ کا کھیل بن جائے گا۔ ہمیں سوشل میڈیا کے ووٹنگ سسٹم اور ریاست کے ووٹنگ سسٹم میں کچھ تو تفریق کرنی چاہیے۔ خدارا سمندر پار پاکستانیوں کے حق خود ارادیت کو ریاستی مذاق نہ بنائیے۔

نوید ملی ہے کہ اب بھی حل نکل آئے گا لیکن شاید پچھلے الیکشن کی طرح اس بار بھی دیر بہت ہو گئی۔ لگتا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو 2023 کے انتخابات میں ”نہر والے پل“ پہ بلایا جائے گا۔ میرا مشورہ سمندر پار پاکستانیوں کو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنی خون پسینے کی کمائی کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے چندے، سیاسی رہنماؤں کی آؤبھگت اور سیاسی وکیلوں کی شاہ خرچیوں کی نذر کریں، وہ جس ملک کے باسی ہیں اس ملک کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2