کارل مارکس اور بیماری کی تشخیص


جنوبی پنجاب کے متوسط درجے کا ایک گھر جہاں تازہ قلعی کی خوشبو ایک بوڑھی عورت کے غمزدہ نقوش، دانائی سے بھری آ نکھوں والے ایک دانشور کی تصویر اور لوہے کی تپائی پر پڑا خط کمرے کی بے سکون خاموشی میں مسلسل اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ اس بوڑھی عورت کے بیٹے کے لیے جہاں دیکھو مار دو کا حکم جاری ہوا ہے کیونکہ اس کا بیٹا غدار تھا۔ جب ساری دنیا ہمیں افغان باقی کہسار باقی کے نعرے سکھا رہی تھی اور روسی ریچھ کو مار بھگانے کے لئے محبتوں کے ڈالر نچھاور کر رہی تھی اس بڑھیا کا خبطی بیٹا سوشلزم کا پرچار کرتا پھر رہا تھا۔ برسوں بعد بڑھیا کا وہ بیٹا مارا بھی گیا لیکن اس وقت تک سوویت یونین کے انہدام نے نظام اور نظریے پر بہت سے سوال اٹھا دیے تھے۔ آ پ سوچ رہے ہوں گے کہ کہانی جنوبی پنجاب کی ہے لیکن کردار میکسم گورکی کے پاویل ولاسوف شیکوف اور اس کی ماں کے لگتے ہیں۔ وہ بوڑھی عورت میری دادی اور اس کا بیٹا میرا تایا تھا۔ پہلی بار مجھے کارل مارکس کے بارے میں میرے تایا نے بتایا اور ظاہر ہے میں کجھ نہ سمجھا۔ فاقہ کش مفکر کی محبت، ارادے اور درد سے سے بھری نگاہیں بہر حال میری روح میں کہیں پیوست ہو گئیں۔

کارل مارکس کی وہ تصویر پھر میرے کمرے میں آ گئی اور گویا میں نے ایک مصیبت مول لے لی۔ ہر آ نے جانے والے سے یہ مکالمہ ہوتا :
نو وارد : ” یہ باباجی آ پ کے دادا ہیں؟ “
میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ موصوف پھر بول اٹھے۔
” میں نے بالو ں سے پہچان لیا تھا“۔

کجھ پڑھے لکھے نخوت سے کہتے، ” بندہ ٹھیک تھا اگر اسلام کا مطالعہ بھی کر لیتا“۔ کچھ زمیندار طبقے سے تعلق رکھنے والے فرماتے، ” اس کو سمجھ ہی نہیں تھی کہ انسان کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے ہر انسان کو مختلف بنایا ہے۔ یہ پتہ نہیں کہاں سے آ گیا یہودی کا بچہ ہمیں سبق پڑھانے“۔ خواتین بھی الٹا سیدھا بولتیں، ” پڑھا تو نہیں لیکن سنا ہے بڑے میاں کے پاس اپنے بچے کو دفنانے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ مانگ تانگ کر ہی گزارا کرتا تھا“۔ بھولا کانا بھی مارکس کو جانتا تھا۔ ” لو جی جہیڑا ایس بابے پچھے لگا اسی کدی سُکھی نہیں دیکھیا“۔ ” جو اس بابے کے پیچھے لگا اس نے کبھی سکون نہیں پایا“۔ کچھ مولوی حضرات مارکس کی عاقبت بھی ٹٹول لیتے تھے، ” اگر اسلام قبول کر لیتا تو آ ج جہنم کی آ گ میں نا جلتا“۔ خیر مارکس کے نظریات کو تو خود مارکسسٹوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا اسی لیے ”گروہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں“۔ اقبال کی شاعری میں ویسے تو جذباتیت، پچھتاوے، تحریک، فراریت اور تاریخی شعور کا امتزاج ملتا ہے جو شاید علم الکلام کا خاصہ بھی ہے لیکن مارکس کے بارے میں کیا خوب کہا ہے، ” نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب“ یعنی وہ ایک پیغمبر نہیں تھا لیکن اس کے پاس کتاب تھی۔

آج مارکس کو پیدا ہوئے 201 برس گزر گئے۔ چھوٹی سی عمر میں یونانی فلسفیوں پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اپنے پیشرو فلسفی ہیگل کے زیر اثر انسان کی بیگانگی کی وجہ تلاش کرنے لگا۔ ہیگل کہہ چکا تھا کہ انسان اپنے اصل یعنی خدا سے دوری کے باعث بیگانہ ہے۔ مثنوی مولانا روم کا آ غاز بھی اسی طرح کے خیال سے ہوتا ہے جب بانسری کے سوز کو درخت سے کٹنے کا المیہ گردانا جاتا ہے۔ مارکس نے منطق کی روایتی موشگافیوں کو ایک طرف رکھا اور تاریخ کے جبر کا تجزیہ کیا۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ انسان دراصل اس شے (پراڈکٹ) سے بیگانہ ہے جسے معاشی مجبوری کے بوجھ تلے بنانے پر مامور ہے۔ مارکس نے بتایا کہ پیداوار کے ذرایع پر قبضہ رکھنے والوں نے ملکیت کے تصور، انسانی محنت کے استیصال اور طبقاتی تفریق پیدا کی جو اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پیداوار کے ذرایع پر قابض گروہوں سے جان نہیں چھڑا لی جاتی۔ انسان کا انسان اور خدا سے تعلق کھوکھلا ہے جب تک کہ یہ سود و زیاں سے پاک نہ ہو جایے۔

بھولا کانا اکثر احمقانہ سے سوال اٹھاتا تھا کہ اگر دنیا سے غربت اور طبقے ختم ہو گئے تو سڑکیں کون دھوئے گا۔ بھولے کانے کو یہ احساس تھا کہ انسانوں کو ذہنی غلام بنانے کے لئے جسمانی غلام رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح کا بودا سوال وہ اٹھاتا کہ اگر معاشی مسئلہ ہی نہ رہا تو کام میں جدیدیت، ندرت، کارکردگی کا خیال کوئی کیوں رکھے گا۔ میں ہمیشہ کہتا کہ ”بھولا جی! تسی غلطی نال کانے رہ گئے ہو، دراصل تے تسی انھے ہو!“۔ ” بھولا جی! آ پ کسی غلطی کی وجہ سے کانے رہ گئے ہیں وگرنہ حقیقت میں آپ اندھے ہیں!“۔ بہت بتایا کہ جناب دنیا میں عظیم تخلیقات کسی کو نیچا دکھانے یا برتری ثابت کرنے کے لیے نہیں ہوئیں بلکہ انسان کی جبلت میں جمالیات کا اظہار پنہاں ہے۔

شیکسپئر کا ڈرامہ، ڈالی کی پینٹنگ، موزارٹ کی سمفنی، غالب کی غزل، مائیکل اینجلو کا مجسمہ اور پابلو نیرودا کی نظم انسان کی عقل و جمالیات کا بے پایاں اور بے غرض اظہار ہے۔ اگر خدا آرائش جمال سے فارغ نہیں تو انسان بھی جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے یے۔ بھولے کانے کو کون سمجھائے کہ مارکس انسان کہ حقیقی آ زادی کی بات کرتا ہے جو مذہب و منطق سے پرے “حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا” کے پچھتاوے سے مبرا ہے۔ ایک بات کہہ کر بھولے کانے نےہمیشہ لاجواب کر دیا کہ مارکس تو ہر انسان کو غداری کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ وہ ریاست اور قوم پرستی کے خلاف ہے۔ شکر ہے بھولا کانا کوئی آ سمانی مخلوق نہیں تھی ورنہ جان کے لالے پڑ جاتے۔ جان کے لالے بھی موجودگی یا غیر موجودگی کی بے یقینی سے کم تکلیف دہ ہیں۔

آسمانی مخلوق تو سیدھا موجود اور غیر موجود کے مخمصہ میں الجھا دیتی ہے۔ بھولا کانا یہ سوال بھی اٹھاتا کہ اللہ نے انسانوں کو ایک جیسا پیدا نہیں کیا تو مارکس کیوں برابری کا ” لچ تلنے“ کی کوشش کر رہا تھا۔ بہت سمجھایا کہ بھولے اور کانے جی اللہ نے انسان کو کم یا زیادہ ٹیلنٹ کے ساتھ پیدا نہیں کیا بلکہ میلان طبع اور رحجا نات میں فرق رکھا ہے اور ساری دنیا اس کے مسخر کرنے کے لئے پیدا کی ہے لیکن ہم نے اسے سری پائے کی تگ و دو تک محدود کر دیا ہے۔ بھولے کانے کو کچھ اور نہ سوجھتا تو وہ مارکس کو ایک رومانویت پسند قرار دے ڈالتا کیونکہ مارکس اپنے آ خری حل میں انسانوں کے لئے ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتا ہے جہاں تضادات ختم ہو چکے ہیں اور انسان جانوروں کی طرح صرف جسمانی بھوک مٹانے میں سرگرداں نہیں یے۔ بتایا کہ بھولا جی مارکس نے بیماری کی تشخیص کی ہے، مداوا کسی نیو اکنامک ورلڈ آرڈر کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے، کسی انقلاب کی صورت میں بھی اور انسانی مخلوق کے مل بیٹھنے کی صورت میں بھی۔

5 مئی 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).