خلائی مخلوق، لاڈلے اور ووٹ کی کٹی پھٹی پرچی


اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) میں فوج اور عدالت کے خلاف میں نواز شریف کے جارحانہ طرز عمل کے خلاف رائے بھی موجود ہے۔ اس رائے کا اظہار سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اکثر کرتے رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر شہباز شریف بھی دبے لفظوں میں اداروں سے تعلقات کو بنائے رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ پارٹی کے اندر موجود اس مخالفانہ دباؤ کے باوجود نواز شریف نے ابھی تک اپنا لب و لہجہ تبدیل نہیں کیا ہے اور اسٹبلشمنٹ کی مخالفت کا گلہ کرتے ہوئے وہ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خفیہ ہاتھ اب عمران خان کے سر پر ہیں اور وہ ہی فوج اور عدالتوں کے چہیتے ہیں۔ اس الزام تراشی کا جواب دینے کے لئے عمران خان نے ایک بار پھر 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا قضیہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے یہ الزام دہرایا ہے کہ ان انتخابات میں فوج نے مسلم لیگ (ن) کی مدد کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ سپریم کورٹ، فوج بلکہ نیب کی تائید و حمایت کرتے ہوئے انہیں مستحکم کرنے وعدہ کرتے ہیں۔ ایک تازہ بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نواز شریف کا یہ الزام کہ فوج اور عدالت تحریک انصاف کی حمایت کررہی ہے ، ان کے لئے نعمت سے کم نہیں  کیونکہ یہ دونوں ادارے عوام میں مقبول ہیں۔ اس طرح عمران خان ایک طرف سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف بات توکرتے ہیں لیکن سیاست کو فوج یا عدالتوں کی مداخلت سے پاک رکھنے کی اصولی بحث کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

پیپلز پارٹی کے معاون چئیر مین آصف زرداری نے سابق آرمی چیف کو ناراض کرکے ڈیڑھ برس کی خود ساختہ جلا وطنی سے واپسی پر سوچے سمجھے طریقے سے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ قربت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف بغاوت کے علاوہ سینیٹ کے چئیر مین کے انتخاب کے موقع پر ان کے کردار سے اس طرز عمل کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ملک بھر میں پیپلز پارٹی کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور سال رواں کے انتخاب میں حکمران پارٹی کے مقابلے میں اب اس پارٹی سے کسی مؤثر کارکردگی کی امید نہیں کی جا رہی۔ پنجاب میں ندیم افضل چن جیسے رہنماؤں کا پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کا فیصلہ اس مایوسی کی علامت ہے۔ تاہم آصف زرداری کا خیال ہے کہ آئیندہ پارلیمنٹ معلق ہوگی یعنی اس میں کسی پارٹی کو بھی اکثریت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ آزاد ارکان بڑی تعداد میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اس طرح زردار ی یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی چابکدستی سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی قوت کی بنیاد پر آزاد ارکان کو ساتھ ملاکر آئندہ حکومت بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ زرداری کا خیال ہے کہ انہوں نے سینیٹ چئیرمین کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے کے لئے جس طرح پیپلز پارٹی کی خدمات پیش کی تھیں، ان کی بنیاد پر انہیں انتخابات کے بعد کی صورت حال میں تعاون اور سہارا میسر آسکے گا۔ یعنی وہ اگر براہ راست ’لاڈلے‘ کی حیثیت نہ بھی حاصل کرسکے تو بھی انہیں سیاسی سپیس فراہم کی جائے گی۔ عمران خان اور زرداری کی حکمت عملی اور باتوں سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں سیاست میں فوج کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کیا ملک کی فوج بھی ان دونوں پارٹیوں کی ان ’قربانیوں اور ایثار‘ کو قبول کرکے انہیں محنتانہ دینے پر آمادہ ہو گی؟ یہ سوال ملک میں اداروں کے کردار اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بحث میں غیر اہم اور بے مقصد ہوجاتا ہے۔

نواز شریف اپنے تئیں اس وقت ’اینٹی اسٹبلشمنٹ‘ سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت واقعی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے سر پر کفن باند ھ کر آئیندہ انتخابات میں اترے گی۔ اس بات کے آثار موجود نہیں ہیں۔ اسی لئے نواز شریف فوج اور سیاست کے حوالے سے کوئی واضح منشور دینے اور ٹھوس آئینی تجاویز پیش کرنے کی بجائے عمران خان اور آصف زرداری پر الزام تراشی کے ذریعے فوج مخالف کردار ابھارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر نواز شریف کو فوج کے سیاسی کردار کے خلاف انتخاب لڑنے کے لئے اپنی مقبولیت پر بھروسہ ہوتا یا وہ اس کا حوصلہ کرتے تو مسلم لیگ (ن) نام نہاد الیکٹ ایبلز کو مسلسل رجھائے رکھنے میں دلچسپی ظاہر نہ کرتی۔ اس کے علاوہ دوسروں کا قد چھوٹا کرکے خود بڑا ہونے کی کوششوں سے بھی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش نہ کی جاتی۔ سیاسی فیصلے کرنے کو صرف پارلیمنٹ کا استحقاق منوانے کی جدوجہد میں نواز شریف کو زیادہ واضح سیاسی پروگرام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں وہ میمو گیٹ اسکینڈل میں صرف اپنی غلطی تسلیم کرنے تک ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ یہ بھی بتاتےکہ ان سے کیا غلطی ہوئی تھی اور وہ کس کے بہکاوے میں آگئے تھے۔ اس طرح اس معاملہ کے بعض ایسے پہلو سامنے آ سکتے ہیں جن کی روشنی میں سپریم کورٹ کو یہ مقدمہ ختم کر کے حسین حقانی کی گرفتاری کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اسی طرح وہ یہ ڈان لیکس کی حقیقت سے بھی قوم کو آگاہ کرسکتے ہیں اور واضح کرسکتے ہیں کہ آخر کیا مجبوری تھی کہ انہیں اپنے دو وزیروں، ایک مشیر اور ایک سرکاری افسر کی قربانی دینا پڑی۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اگر لاڈلے کی بحث سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے اور ماضی میں سول ملٹری تنازعہ کے بارے میں پیش آنے والے معاملات کو سامنے نہیں لائیں گے تو اس کا ایک ہی مقصد لیا جاسکتا ہے کہ نواز شریف اسٹبلشمنٹ کی مخالفت کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔ اقتدار حاصل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) بھی وہی سیاسی کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوگی جس کا وعدہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کررہی ہیں۔ ان حالات میں پارلیمنٹ کی خود مختاری انتخابات سے پہلے یا بعد میں خواب ہی بنی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali