زمین سے بچھڑتی ہوئی دو نسلوں کی کہانی


وہ چھوٹا سا گاؤں، جس کا نام سُکا یعنی سوکھا ہے اور جو میاں والی سے تلہ گنگ جانے والے راستے پر واقع ہے۔ وہ چھوٹا ساگاؤں بہت پہلے سر کولن کیمپ بیل کے نام پر رکھے جانے والےشمالی پنجاب کے ضلع کیمپ بیل پور کی حدود میں آتا تھا، جسے مقامی لوگ اپنی سادہ لوحی کے سبب ضلع کیمل پور کہتے تھے۔ بعد میں اس ضلعے کا نام اٹک رکھ دیا گیا۔ عرصہ دراز تک وہ گاؤں اسی ضلعے میں شامل رہا، لیکن پھر اسے ضلع چکوال کا حصہ بنادیا گیا۔ تب سے آج تک یہ گاؤں اسی ضلعے کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔

خشک سالی سے ہمیشہ متاثر رہنے والے اس گاؤں کے جوان شوقیہ طور پرنہیں بلکہ اپنی تنگ دستی اورتنگ دامانی سے عاجز آکر انگریز کی فوج میں شامل ہو کر پہلی جنگِ عظیم کا حصہ بنے تھے۔ انہیں سیاحت کا کوئی شوق نہیں تھا مگر وہ انگریز سرکار کی خاطر ملکوں ملکوں جنگ کرنے میں مصروف رہے۔ یورپ اور ایشیائی ممالک کا حسن بھی ان کی نگاہوں کو خیرہ نہیں کرسکا، کیوں کہ ان کی آنکھوں میں ہروقت اپنے گِراں کی یاد چراغ کی لو کی مانند روشن رہتی تھی۔ وہ سب دیارِ غیر کی نامہربان گلیوں میں بھٹکتے اپنے گاؤں کی مہربان گلیوں کےآسودہ سائے تلاش کرتے رہے۔

انگریزی فوج کی نوکری دادا ملک شیر محمد کے مزاج کے خلاف تھی، اس لیے انہوں نے بہت جلد ریٹائر منٹ لے لی۔ سبک دوشی سے حاصل ہونے والی رقم بھی تادیر نہ چل سکی، کیوں کہ ملک شیر محمد ضرورت سے زیادہ ہی شاہ خرچ واقع ہوئے تھے۔ جو تھوڑی بہت زمین ان کے پاس تھی، وہ سب کی سب بارانی تھی اور باران ِ رحمت کو کبھی آدم زاد کی اغراض سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ وہ سدا کی من موجی ہے، جیسے ملک شیر محمد اپنی زندگی میں رہے۔

ان کے بڑے بھائی ملک باقی خان نے جب زرخیز اور سرسبز زمین کی تلاش اور اس کے حصول کی خاطر ایک بار پھر اپنا گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا، تو دادا کو ان کا یہ فیصلہ بادل نخواستہ قبول کرکے ان کے ساتھ ایک طویل سفر پر جانا پڑا۔ انہوں نے اس سفر سے بچنے کی خاطر کئی حیلے تراشے، لیکن بڑے بھائی کا حکم بجا لانا ہی پڑا۔

جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں سے شروع ہونے والازمینوں کی خریدوفروخت اور عارضی سکونت کا سلسلہ سندھ کے ضلع خیر پور میں میرواہ نہر کے کنارےایک چھوٹے سے گاؤں کی آبادکاری پر تمام ہوا۔ اس گاؤں کا نام دادا کے بڑے بھائی کےنام پر گوٹھ ملک باقی خان رکھا گیا۔ دونوں بھائی میر واہ نہر کےکنارے واقع اس زرخیز سرزمین پر آباد ہوگئے۔ انہوں نے بعص لوگوں کو بھی سُکا سے یہاں سے لاکر آباد کیا۔ ان میں چند نے دونوں کے درمیان سنگین اختلافات پیدا کیے، جس کی وجہ سے دادا نے کئی بار ناراض ہوکرگاؤں چھوڑا۔

اوپر تلے پانچ بیٹیوں کی پیدائش بھی دادا کی متلون مزاجی اور رومان پسند طبیعت پر اثرانداز نہ ہوسکی۔ بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے بےچاری دادی زیادہ پریشان رہتی تھیں۔ انہوں نے مزارات پر بیٹے کی پیدائش کے لیے منتین بھی مانیں۔ 1940 کے ابتدائی مہینوں کی ایک شب ان کے ہاں ان کے پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام ملک خضر حیات رکھا گیا۔ اس پیدائش پر گاؤں بھر میں مکھانے اور بتاشے تقسیم کیے گئے تھے۔

ابو جب چار پانچ سال کے ہوئے تو دادا نے دادی کی مرضی کے خلاف انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیےآبائی گاؤں سُکا بھجوادیا۔ گاؤں کے نزدیک واقع ایک پرائمری اسکول سے پانچ جماعتیں پاس کرنے کے بعد ان کا داخلہ جس ہائی اسکول میں کروایا گیا، وہ گاؤں سے بارہ پندرہ میل دور واقع تھا۔ وہاں طلبا کے لیے ہاسٹل کا انتظام بھی تھا۔ ہفتے کے آخری دن سارے طلبا اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔ سو ابو کوبھی اپنے گاؤں آنا پڑتا تھا۔ چھٹی ختم ہونے والے دن رات گئے وہ گاؤں سے اسکول کے لیے پیدل روانہ ہوتے۔ راستے میں پڑنے والے دیہات سے اسکول کے ساتھیوں کو ہم راہ لیتے، گھُپ اندھیرے میں کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعد صبحِ کاذب کے وقت وہ سب اسکول پہنچتے۔ وہ کچھ عرصہ اپنے دو چچازاد بھائیوں کے ساتھ ایک گھوڑی پر سوار ہو کر بھی اسکول جاتے رہے۔ انہیں ہر بار گھوڑی کی پیٹھ پر سب سے پیچھے بیٹھنا پڑتا، جہاں بیٹھ کر سفر کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ نیچے گرنے کا ڈر لاحق رہتا۔ بعد میں ان چچا زاد بھائیوں نے پڑھنا چھوڑ دیا تو وہ پھر سے پیدل ہی اسکول جانے لگے۔

دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد ابو لاہور جاکر کسی کالج میں داخلہ لے کر تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانا چاہتے تھے، مگر ان کی قسمت نے ان کے لیے کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔ دادا نے انہیں واپس بلوا لیا کیوں کہ دادا نے اپنے بھائی سے شدید اختلافات کی وجہ سے اپنا آباد کیا ہوا گاؤں چھوڑدیا تھا اور تحصیل ٹھری میرواہ میں واقع سنجرانی بلوچوں کے ایک گاؤں میں آباد ہوگئے تھے۔ ابو واپس آکر اسی گاؤں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں جلد ہی محکمہِ زراعت میں فیلڈ سپروائزر کی ملازمت مل گئی۔ اب دادا اور دادی کو ان کی شادی کا خیال تنگ کرنے لگا۔

ابو کی بارات سنجرانیوں کے گوٹھ سے ان کے آبائی گاؤں سُکاروانہ ہوئی۔ وہاں ان کی ماموں زاد بہن سے ان کا نکاح پڑھایا گیا۔ رخصتی کے بعد امی ان کے ساتھ آکر اسی گوٹھ میں رہنے لگیں۔ ابتدا میں انہیں سندھی سمجھنے اور بولنے میں خاصی دقت کا سامنا پڑا۔ بعد میں آہستہ آہستہ انہیں اس کی عادت ہوتی چلی گئی۔

دادا کے ہاتھوں ایک سنجرانی بلوچ کے قتل کےبعد انہیں وہ گاؤں بھی چھوڑنا پڑگیا۔ قتل دادا نے کیا تھا مگر سنجرانیوں کے سردار نے پرچہ میرے چچا کے خلاف کٹوایا۔ ابو بے چارے عدالت کی پیشیاں بھگتتے رہے اور اپنے چھوٹے بھائی کی رہائی کے لیے کوشش کرتے رہے۔ سابق وزیرِ اعلی سندھ سید غوث علی شاہ نے وہ مقدمہ لڑا اور ایک سال بعد وہ مقدمہ جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ یو ں چچا کی رہائی عمل میں آئی۔

اس دوران ابو کے ہاں دو بچوں کی ولادت ہوچکی تھی۔ ان کے کچھ بڑا ہونے کے بعد انہیں ان کی تعلیم کی فکر ہوئی۔ دادا نے کوٹ ڈیجی کے قریب کچھ زمین خریدی اور چچا کے ساتھ وہاں منتقل ہوگئے۔ ابو، امی اور دوبچوں کے ساتھ محراب پور نامی قصبے میں منتقل ہوگئےاور وہاں رہنے لگے۔

محکمہِ زراعت کی نوکری کے ساتھ ساتھ انہوں نےاسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کے نمائندے کی حیثیت سے بھی کام شروع کردیا تھا۔ اس کام میں انہیں جلد ہی ترقی حاصل ہوئی، جس کی وجہ سے انہوں نے محکمہِ زراعت کو خیر آباد کہا اور مستقل طور پر اسی کام سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران ان کے ہاں چار مزید بچوں کی پیدائش ہوئی۔

پاؤں کےجس چکر نے دادا کی زندگی کو ہمیشہ ایک گردش کا اسیر بنائے رکھا، اب وہی چکر ابو کے پیروں میں آپڑا تھا۔ محراب پور سے نکل کر نواب شاہ میں تین برس قیام کیا۔ اس کے بعد ٹھٹھہ شہر میں پانچ برس رہے۔ ٹھٹھہ ان کے لیے ایک آسیبی شہر ثابت ہوا۔ انہوں نے جمعرات کی ہر شب مکلی کی پہاڑی پر واقع عبداللہ شاہ اصحابی کے مزار پرگزارنا اپنا معمول بنا لیا۔ اسی مزار پر گزاری ہوئی جمعراتوں کے دوران وہ ایک خاتون کی زلفوں کے اسیر ہوگئے، جو اپنی والدہ کے ساتھ روحانی علاج کی غرض سے وہاں آئی ہوئی تھی۔

ٹھٹھہ میں قیام کو پانچ برس ہونے والے تھے، جب شاہ جہانی مسجد کے نزدیک میں اپنے ایک دوست کے گھر پر اس کی مدد کرنےمیں مصروف تھا تو ابو مجھے تلاش کرتے ہوئے وہاں آگئے تھے۔ دوست کے اہلِ خانہ اپنا سامان باندھ رہے تھے تا کہ راتوں رات کہیں اور منتقل ہوجائیں۔ انہیں علاقہ چھوڑنے کے لیے دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ یہ ضیاءالحق کی سفاک آمریت کے اثرات تھے، جن کی وجہ سے سارا سندھ یکایک تعصب کی آگ میں جلنے لگا تھا۔ وہ دوست اردو اسپیکنگ تھا اور اس کے گھر والے خطرہ محسوس کر رہےتھے۔

اسی خطرے کی بو سونگھتے ہوئے ابو نے فیصلہ کیا کہ ہم پہلے انہیں روانہ کریں گے، پھر گھر جائیں گے۔ وہ لوگ گھر میں اپنا سامان باندھنے میں مصروف تھے۔ میں اور ابو باہر واٹر سپلائی کی ٹینکی پر بیٹھے ہوئے ٹرک کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔

اچانک چہروں پر ڈھاٹا باندھے ہوئے دوموٹر سائیکل سوار نمودار ہوئے۔ پیچھے بیٹھے شخص نے پستول تان کر ہم پر سیدھے سیدھے چھ فائر کیے۔ پانچ گولیاں ابو کے جسم کے مختلف حصوں میں اترگئیں۔ ایک گولی میری کلائی چھوتی ہوئی گزر گئی۔ میں نے دوڑ کر اپنے دوست کے گھر دروازہ بجایا۔ انہوں نے خوف سے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔ دوست کے دادا نے اندر سے کہا۔ ”گھر پر کوئی نہیں ہے“۔

اپنےگھر واپس آتے ہوئے میں نے سہارے کے لیے اپنا ہاتھ ابو کی طرف بڑھایا مگر انہوں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وہ جب لہولہان پہلی منزل پر واقع مکان کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اندر داخل ہوئے، تو امی نے جیسے ہی انہیں دیکھا، ا سی دم ان کے اوسان خطا ہوگئے۔

ٹھٹھہ کے سول ہاسپٹل میں طبی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے راتوں رات انہیں کراچی منتقل کیا گیا۔ پہلے چند روز وہ سِول ہاسپٹل کراچی میں داخل رہے، پھر انہیں ایک پرائیویٹ ہاسپٹل شفٹ کردیا گیا۔ وہ تقریباً چھ مہینے زیرِ علاج رہے۔ ان کے بدن میں داخل ہونے والی پوری پانچ گولیاں باہر نکال لی گئیں، لیکن وہ دوست، جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا، وہ خود یا اس کے گھر کا کوئی فرد ابو کی مزاج پرسی کرنے کبھی نہیں آیا۔

اس واقعے کے بعد ٹھٹھہ میں مزید قیام کرناممکن نہیں رہا تھا، اسی لیے ہنگامی بنیاد پر کراچی کا رخ اختیارکیا گیا۔ ابو جیسا باہمت اور آہنی مزاج رکھنے والاشخص، شاید دنیا میں نہ ہوگا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ پانچ گولیاں نکالے جانے کے بعد ان کابدن پہلے کی طرح توانا اور بھرپور ہوچکا ہے، مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔ وہ کئی برسوں سے اسٹیٹ لائف میں ایریا مینیجرکی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ نجانے ان کے دل میں کیا سمائی، انہوں نے اپنا تبادلہ راول پنڈی کروا لیا۔ بہت کوشش کے باوجود وہاں ان کا کام صحیح طرح جم نہ سکا۔ مجبوراً انہیں دوبارہ سندھ کا رخ اختیار کرنا پڑا۔

امی اور ابو کی ایک خاص عادت، میں جس کا عمر بھر گواہ رہا، وہ یہ تھی کہ دونوں رات گئے تک آپس میں باتیں کرتے رہتے تھے۔ کبھی ہنس کر، کبھی اداسی سے، غرض کہ ان کی یہ گفتگو کئی تیور بدلتی دیر تک جاری رہتی۔ امی صوم الصلوات کی پابند تھیں، اس لیے فجر پڑھنے میں ناغہ کم ہی کرتیں، جب کہ ابو کے مزاج پر سندھ کا صوفی رنگ غالب آچکا تھا۔ وہ مذہب سے بہت حد تک بیگانہ ہی رہتے تھے۔ کبھی کبھار امی کے بےحد اصرار کے بعد جمعے کی نماز یا عیدین پڑھ لیتے تھے۔

امی کی صحت زیادہ خراب رہنے لگی تھی۔ انہیں بہ یک وقت کئی بیماریوں نے آلیا تھا۔ ابو پوری دل جمعی سے ان کا علاج کرواتے رہےلیکن امی دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئیں۔ اپنے آبائی گاؤں کا آخری دورہ کرتے ہوئےان کی طبیعت ایسی بگڑی کہ انہیں اسلام آباد کے پمز ہاسپٹل میں داخل کروانا پڑا۔ وہ کئی روز تک وہاں زیرِ علاج رہیں، پھر اچانک ان کی سانسیں تھم گئیں۔ انہیں گاؤں کے قبرستان میں نانا کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

ان کی وفات کے بعد ابو تیرہ برس زندہ رہے، لیکن یہ پہلے والے ابو نہ رہے تھے، کیوں کہ ان کا ہر حکم بجالانے والی، ان کے ناز اٹھانے والی، اب دنیا میں نہ رہی تھی۔ امی کی وفات کے بعد ابو مستقل گھر پر رہنے لگے تھے۔ بس شام کے وقت گھر سے نکلتے اور قریبی ہوٹل پر بیٹھ کر، لوگوں سے گپ شپ کر کے واپس آجاتے تھے۔

تین ساڑھے تین برس پہلےان پر دل کا دورہ پڑنے کے ساتھ فالج کا حملہ بھی ہوا۔ فالج کا ظاہری اثر تو کچھ عرصے میں زائل ہوگیا لیکن اس حملے کے بعد وہ زیادہ گم صم اور خاموش ہوتے چلے گئے۔ ان کی وہ دبنگ آواز، جسے سن کر ان کے بھتیجوں، بھانجوں اور ان کی اولادکے پیشاب خطا ہوجاتے تھے، اب وہ دھیرے دھیرے نحیف ہونے لگی تھی۔ ان کی وہ آنکھیں، جو مشکل ترین حالات میں ہمیشہ غیر متزلزل اعتماد سے چمکتی دکھائی دیتی تھیں، اب وہ ہولے ہولے بجھنے لگی تھیں۔ ان کی پُر اعتماد چال میں ڈگمگاہٹ در آئی تھی لیکن وہ اب بھی چلتے ہوئے میرا سہارے کے بڑھا ہوا ہاتھ آسانی سے قبول نہیں کرتے تھے۔ پھر اچانک، ایک روز وہ ایسی جگہ چلے گئے، جہاں انہیں کسی کے سہارے کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ شاید اب وہ سات آسمان اوپر کسی کہکشاں کے سائے میں میں امی سے دادا کے بارے میں باتیں کر رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).