”خلائی مخلوق“ اور چودھری نثار


سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ”خلائی مخلوق“ والے بیان کے بعد، آج کل عوام اور میڈیا کی توجہ اسی ”خلائی مخلوق“ کی جانب ہے۔ گو ہر ذی شعور شخص اس امر سے واقف ہے، دراصل یہ اشارہ کس جانب ہے لیکن کوئی بھی شخص کھل کر یا براہ راست اس مخلوق کو اصل نام سے نہیں پکار سکتا۔ یہ ”خلائی مخلوق“ اسٹیبلشمنٹ اور پس پشت قوت کے نام سے بھی جان پہچانی جاتی ہے۔ اس مخلوق پر براہ راست کسی بھی سیاستدان یا صحافی کا تنقید نہ کر پانا دراصل اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے، کہ یہی مخلوق پاکستان میں گزشتہ ستر برس سے اصل حکمران ہے اور وطن عزیز کے سیاہ و سفید کی مالک ہے۔

والٹئیر نے کہا تھا کہ ”اگر تم یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ تم پر حکمرانی کون کرتا ہے تو تنقید کر کے دیکھو۔ جس گروہ یا قوت پر تمھیں تنقید کی اجازت نہیں ہوگی، دراصل وہی تمھارے اصل حکمران ہوں گے“۔ پاکستان میں کون سی قوتیں ایسی ہیں جن پر تنقید کی اجازت نہیں ہے، یہ سب کے سامنے عیاں ہے۔ پاکستان میں ”خلائی مخلوق ” کا تسلط گزشتہ ستر برسوں سے قائم ہے اور ہر دور میں اس نے اپنی مرضی کے فیصلے قوم پر مسلط کیے ہیں۔

اسی خلائی خلوق نے اپنی نرسریوں میں سیاسی رہنماؤں کی پرورش کی اور ان کی نشوونما کر کے ایک قد آور رہنما بنایا۔ جب سیاسی رہنما مضبوط ہونے لگ گئے قومی پالیسیوں اور بیانیوں پر ڈکٹیشن لینے کے بجائے انھیں تبدیل کرنے پر آمادہ ہوئے، تو فورا ان سیاستدانوں کو ”احتساب“ کے شکنجے میں لا کر ان سے جان چھڑوا لی گئی۔ احتساب ایک ایسا ہتھیار ہے جو صرف اور صرف ان سیاستدانوں کو شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو ”خلائی مخلوق“ کی قومی پالیسیوں اور بیانیوں پر اجارہ داری اور تسلط کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔

میاں نواز شریف ایک زمانے میں خود اسی ”خلائی مخلوق“ کی مدد اور تعاون سے سیاسی مخالفین کو اکھاڑتے اور پچھاڑتے تھے۔ اس زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے اور ایک روشن خیال جماعت کا علم تھاما ہوا تھا۔ وقت نے پلٹی کھائی اور آج نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا علم تھامے کھڑا ہے۔ جب کہ آصف زرداری کی قیادت میں موجودہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے چرنوں میں ڈھیر ہو کر اقتدار حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔

سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو زیر عتاب لا کر مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کا یہ سارا کھیل پرانا ہے اور تسلسل سے کھیلا جاتا رہا ہے، لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ اس کھیل کو رچانے کے لیے کسی مارشل لا یا عبوری حکومت کی ضرورت نہیں پڑی اور ایک منتخب حکومت کو چند بڑے میڈیا ہاوسز، پیشہ ور اور آزمودہ قصیدہ خواں صحافیوں اور عدلیہ کے فیصلوں کے ذریعے مفلوج کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے گئے ہیں۔ ناپسندیدہ سیاسی رہنما تاحیات نا اہل بھی ہو گیا اور ایک کے بعد ایک کر کے اس کی ساری ٹیم کو بھی نا اہل کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب کی بار شکار ہونے والے سیاستدان نے بھی چپ سادھنے کے بجائے اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے

چوں کہ ”خلائی مخلوق“ کو اپنے اوپر تنقید سننے کی زرا سی بھی عادت نہیں ہے اس لیے ایک روایتی حلیف صوبے سے اپنے خلاف ایک بھرپور مزاحمتی بیانیہ تیار ہونے کی وجہ سے اسے سخت مشکلات درپیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے ”خلائی مخلوق“ والے بیان کے بعد چودھری نثار کو میدان میں اتارا گیا اور ان کی پریس کانفرنس کے ذریعے نواز شریف کو یاد دہانی کروا دی گئی کہ ”کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا۔ تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“۔

چودھری نثار کا احسان جتلانا کہ 40 سے 45 ارکان اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں، لیکن انھوں نے دریا دلی کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں جماعت نہ چھوڑنے کا کہا ہے، دراصل ایک طرح سے یہ پیغام ہے کہ اگر نواز شریف ”خلائی مخلوق“ پر تنقید سے باز نہ آئے تو ان کی جماعت کے حصے بخرے کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ نواز شریف کو چودھری نثار کا یہ مشورہ کہ کسی بھی ادارے پر تنقید کے بجائے مفاہمت کی راہ نکالی جائے، دراصل ”خلائی مخلوق“ کی جانب سے پیغام ہے کہ نواز شریف اپنے قریبی رفقا سمیت اب چپ سادھ لیں اور سیاست سے دور ہو کر رِٹائرمنٹ کی زندگی بسر کریں۔

”خلائی مخلوق“ کو شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نون نہ صرف قبول ہے بلکہ مفاہمت کی صورت میں 80 کے لگ بھگ نشستیں مسلم لیگ ”شہباز“ کو عام انتخابات میں جیتنے سے روکے جانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ چودھری نثار چوں کہ ”خلاِئی مخلوق“ کے چہیتے ہیں، اس لیے اس مخلوق کی سیاسی انجینرنگ اور سیاست میں عمل دخل پر تنقید کو وہ ”گناہ کبیرہ“ سمجھتے ہیں۔

چودھری نثار کا پیغام اپنی جگہ لیکن بات کچھ یوں ہے کہ نواز شریف نے اگر چودھری نثار یا ”خلائی مخلوق“ کا مشورہ ماننا ہوتا، تو وہ ہرگز بھی مزاحمت کی راہ اختیار نہ کرتے اور اپنی نا اہلی کے بعد آرام سے بیرون ملک ملک بس کر، پرویز مشرف کے مانند گلچھرے اڑاتے۔ چودھری نثار کی پریس کانفرنس دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ ”خلائی مخلوق“ اس وقت پنجاب سے اٹھنے والی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لہر سے پریشان ہے۔ نواز شریف اور اس کی بیٹی کو جیل میں ڈالا جائے تو ان کی سیاسی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا اور اگر آزاد چھوڑا جائے تو جلسوں کے ذریعے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو مزید تقویت ملے گی۔ اگر مسلم لیگ نواز کے حصے بخرے کر کے عام انتخابات منعقد کروا بھی لیے جائیں تو ان انتخابات کی کریڈیبیلیٹی پر سوال اٹھے گا۔ دوسری جانب اپوزیشن میں بیٹھی مسلم لیگ نواز اپنے دور اقتدار کے برعکس انتہائی فعال ہو گی اور ایک مخلوط حکومت کو کسی بھی صورت چلنے کا موقع نہیں دے گی۔

”خلائی مخلوق“ کی جانب سے میڈیا پر غیرعلانیہ سینسر شپ عائد کرنے اور سیاسی میدان سے نواز شریف کو آوٹ کرنے کے باوجود عمران خان اور آصف زرداری پنجاب میں نہ تو اپنے قدم جما پائے ہیں اور نا ہی مستقبل قریب میں ان سے کسی خاص کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں خلائی خلوق کی ہر ممکن کوشش ہو گی کہ اپنے آزمودہ اور فرماں بردار سیاسی حلیف شہباز شریف اور چودھری نثار پر مشتمل جوڑی کے ہاتھوں میں مسلم لیگ نواز کو سونپ دیا جائے، تا کہ معاملات مستقبل میں بھی ان کے حق میں چلتے رہیں۔

اس ساری صورت احوال میں نواز شریف کیا فیصلہ کرتے ہیں، اس سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی تصویر ابھر کر سامنے آ جائے گی۔ اگر نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا علم بلند رکھتے ہوئے مزاحمتی سیاست کرتے ہوئے اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں، تو انھیں ”خلائی مخلوق“ کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد موجود چودھری نثار جیسے پرو اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں سے جان چھڑوانی ہوگی اور انھیں اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف سے بھی اپنے بیانیے اور موقف کی پر زور تائید اور حمایت درکار ہوگی، جو کہ ابھی تک دکھائی نہیں دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).