زلزلہ اور موت


یہ تعفن، یہ بدبو، یہ سب کچھ اس کے پیاروں کے جسم سے آرہا ہے۔ یہیں کہیں نیچے امّی کی بہن دبی ہوئی تھیں؛ چچا جان، چچی جان، سلیم بھائی، مراد بھیّا، رفیق الاسلام، نزہت پروین، شگفتہ، نعیم، رضوان وہ سب کے سب اندھیرے میں کہیں ہاتھ پیر مارتے ہوئے مدد کے انتظار میں آہستہ آہستہ سسکتے ہوئے بے ہوش ہوئے ہوں گے اور پھر اسی بے ہوشی میں اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہوئے مرگئے ہوں گے۔ اب ان مرے ہوئے بے گور و کفن لاشے آہستہ آہستہ ختم ہورہے تھے؛ پگھل رہے تھے اوران میں سے اُٹھتا ہوا تعفن پورے مظفر آباد میں پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک عجیب قسم کا ٹارچر تھا؛ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔

مظفرآباد ہی میں وہ ایدھی ایمبولینس کے رضا کاروں میں شامل ہوگیا۔ پانچ دن اسے ہوش نہیں تھا۔ وہ دن رات ان رضاکاروں کے ساتھ کام کرتا رہا۔ اس کے بچے کھچے رشتہ دار، اپنے اپنے گھروں کے سامنے گلی میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ پتا نہیں غم تھا، سستی تھی، کاہلی تھی، نا امیدی تھی یا کچھ اور؛ وہ آج تک نہیں سمجھ سکا تھا۔ شاید حادثات میں ایسا ہی ہوتا ہو۔ شاید نا امیدی میں انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہو۔ شاید امداد کی آمد کی توقع انسان کو اندرسے بے ضمیر بنادیتی ہو۔ اسے کرپٹ کردیتی ہو۔

اس کا بچے کھچے رشتہ داروں کے ساتھ ٹھہرنے کو دِل نہیں چاہا تھا۔ وہ اور اس کے انگلینڈ سے آئے ہوئے دوست ایدھی رضاکاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ ایمبولینس میں بیٹھ کر وہ چھوٹے چھوٹے گاوں، دیہاتوں میں گیا؛ کدال سے دیواریں توڑ کر زخمی عورتوں، مردوں، بچوں کو اٹھایا اور مظفر آباد میں بنے ہوئے عارضی اسپتالوں میں لاتا رہا۔ اس کے علاوہ طرح طرح کے کام تھے، کہیں کمبل پہنچانا ہے تو کہیں ٹینٹ لگانا ہے۔ کہیں چاول دال آٹا پہنچانا ہے تو کہیں پانی کی کمی ہے۔ کہیں ماں باپ مرگئے ہیں اور لاوارث بچے ہیں جنھیں سرکاری یتیم خانے میں پہنچانا ہے۔ جتنا کام کرتے جاتے کام اتنا ہی بڑھتا جاتا۔ اسے ایدھی کے رضا کاروں پر حیرت ہوئی، جو بھوکے پیٹ اور معمولی دال روٹی کھا کر، بے تکان صبح سے شام تک کام کرتے رہتے۔

وہ جب بھی واپس مظفرآباد آتا، پریشان ہوجاتا۔ شہر میں بدبو بڑھتی ہی جارہی تھی۔ لاشیں نکالنے کی کوشش بھی نہیں ہورہی تھی۔ حکومت کے پاس وہ جدید آلات نہیں تھے جن سے کنکریٹ ہٹایا جاتا۔ آہستہ آہستہ نیچے تک پہنچ کر جسموں کو باہر لانے کی کوشش کی جاتی۔ پاکستان کشمیر کی حکومتیں جو روزانہ کے پانی، بجلی، سیوریج کے نظام کو نہیں چلا سکتی تھیں، وہ یکایک آنے والے سیلاب، طوفان، زلزلے سے کیسے نبرد آزما ہوسکتی تھیں۔

وہ سوچتا کہ لندن میں کیا ہوگا، اگر اس قسم کی تباہی لندن میں آگئی۔ شاید شروع میں ایک صدمہ سا ہو مگر ایک نظام موجود ہے۔ اسپتال کا نظام، ٹرانسپورٹ کا نظام، دریائے ٹیمز میں کشتیوں کا نظام، دوسرے شہروں کا نظام اور ہر شہر کے نظام کا دوسرے شہر کے نظام سے ایک تعلق۔ اسے یقین تھا کہ ابتدائی نقصان کے بعد بہت سی جانیں بچ جائیں گی۔ اسے اپنے لوگوں پر رحم آیا، رونا آیا۔ اپنی قسمت پر رشک بھی ہوا، افسوس بھی ہوا کہ آخر یہ لوگ کیوں دنیا کی ان نعمتوں سے محروم ہیں۔ ان سوچوں کی کوئی انتہا نہیں تھی۔

یکایک بارش شروع ہوگئی۔ ایمبولینس سمیت اسے مظفر آباد سے اوپر گڑھی دوپٹہ کے پاس رُک جانا پڑا۔ دھواں دھار بارش اپنے ساتھ سرد ہوائیں بھی لے کر آئی تھی۔ جب بارش تھمی تو مظفرآباد پہنچنے سے پہلے شہر سے نکلتے ہوئے پانی کے ریلے نے کیچڑ بنادیا تھا؛ جہاں گاڑی پھنس گئی تھی۔ بڑی مشکل سے وہ لوگ گاڑی کو دھکا دے کر نکال سکے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا آنے کے باوجود اس کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ دریائے نیلم کے ساتھ ہی ایک صاف جگہ پر ان لوگوں نے ایمبولینس روک لی۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد اس کا دِل چاہا کہ دریا کے بہتے ہوئے پانی میں ہاتھ منہ دھولے۔

پانی اُسے اچھا لگا؛ بہتا ہُوا پھبن اڑاتا ہوا ٹھنڈا پانی؛ منہ پر چھینٹے مارنے کے بعد اس نے بے قرار سا ہوکر دریا کا پانی پیا؛ اسے ایسا لگا جیسے پورے جسم میں ٹھنڈ پڑگئی ہے۔

مظفرآباد پانی سے بھیگا ہوا تھا؛ زلزلے کے بعد ہلکی پھلکی بارشیں تو ہوتی تھیں، لیکن اس دفعہ بھر پور بارش ہوئی تھی۔ ملبے کے اوپر جم کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اب ملبے میں سے پانی نکل کر اُترائی اور ڈھلانوں سے ہوتا ہوا نیلم دریا میں جارہا تھا۔ کسی نے کہا کہ چلو اوپر والے نے میتوں کو نہلا تو دیا۔

اسے لگا کہ اس نے میت کا پانی پیا ہے؛ مردہ جسموں کو دھوتا ہوا پانی، جوآہستہ آہستہ نیلم دریا میں ملتا جا رہا تھا۔ اُس وقت ہی سے اسے اُلٹی شروع ہوگئی تھی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2