دل برائے فرو خت، قیمت ایک مسکراہٹ


مظفر احمد مشتاق

\"Muzaffarآجکل ہمارے معاشرے میں بیروزگاری میں روز بروز ہونے والی ترقی کے سبب دلوں کا کاروبار کچھ زیادہ ہی عروج پر دکھائی دے رہا ہے۔ اور یوں اس ادلا بدلی اور لین دین میں دلوں کے ٹوٹنے کا احتمال بھی کافی حد تک بڑھ چکا ہے۔ اور اکثر اوقات تو دلوں کے ساتھ ساتھ ہڈیاں ٹوٹنے کے معاملات بھی سامنے آرہے ہیں۔لیکن پھر بھی اس کارِ بیکار کی تشہیر و نمائش کا سلسلہ سر عام جاری و ساری ہے اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔

ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ مجھے ایک پروگرام میں شمولیت کی غرض سے ملتان جانے کا اتفاق ہوا۔ دوران سفر پاکستان کی نام نہاد اور مشہور و معروف ٹریفک سروس’’ رکشہ‘‘ کی سواری بھی نصیب ہوئی۔ رکشہ ڈرائیور ظاہری خدوخال سے بر اعظم افریقہ کے باشندوں سے کافی حد تک مماثلت رکھتا تھا تاہم اس کا ذوق موسیقی بتا رہا تھا کہ اس کا تعلق وطن عزیز سے ہی تصور کیا جائےتو بہتر ہے ۔ کیونکہ وہ نہ صرف خود موسیقی سے خوب لطف انداز ہو رہا تھا بلکہ با آوازِ بلند اسے دوسروں تک پہنچانا بھی اپنا فریضہ حق سمجھ رہا تھا۔ فرنٹ سیٹ پر تشریف فرما ہونے کی وجہ سے خاکسار کو حسب روایت گراں قدر شاعری کے علاوہ کچھ دیگر علمی و ادبی فقرات کے مطالعہ کا شرف بھی ملا۔ بالکل سامنے پائلٹ محترم کاموبائل نمبر درج تھا اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ :۔

’’دل برائے فرخت ، قیمت صرف اک مسکراہٹ‘‘

اسے پڑھنے کے بعد میں سوچ میں پڑگیا کہ خدارا ایسی بھی کیا مجبوری کہ نوبت یہاں تک آپہنچی ۔؟ ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ نظر دائیں جانب پڑ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں خون میں لت پت اک زخمی دل ہے اور ساتھ ہی موٹے حروف میں تحریر تھا:۔

’’دل جلے‘‘

اب میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ بات تو خوب ہے لیکن اگر ڈرائیور صاحب نے اپنی نسبت یہ تحریر کروایا ہے تو ’’دل جلے‘‘ کی بجائے ’’دل مع جسم و جان جلے ‘‘ ہوتا تو بجا تھا۔۔!  تاہم اپنے اپنے ذوق کی بات ہے ہمیں کیا۔؟  اس کے بعد جب بائیں پہلو کی باری آئی تو وہاں اک اسٹیکر چسپاں تھا جو کہ صاحبِ رکشہ کی نیک نیتّی کی اچھی طرح عکاسی کر رہا تھا۔ یہ ایک خاتون محترمہ کی تصویر تھی اور وہ بھی بانقاب ۔اور ساتھ ہی اخلاقی درس کے طور پر یہ فقرہ درج تھا کہ :۔

’’پیارے!دیکھ ضرور مگر پیار سے‘‘

ماشاء اللہ کہنے کے بعد جب واپس دل کی طرف پلٹا تو خیال آیا کہ بھلا کون بیوقوف ہوگا جو اس جلے ہوئے دل کو خریدے گا۔۔۔؟ آخر دل ہے کوئی انرجی سیور تو نہیں کہ جلنے کے بعدبھی پچاس روپے دیکر درست کروا لیا جائے۔!

خیر قبل اس کے کہ معاملہ نتیجہ خیز مرحلہ میں داخل ہوتا خاکسار منزل مقصود پر پہنچ چکا تھا۔ اتر کر ڈرائیور کو کرایہ ادا کر کے خیر باد کہا اور ابھی چلنے کو ہی تھا کہ رکشہ کی پشت پر تحریر ایک دعائے نہ خیر پر نظر پڑی جو کہ یہ تھی:۔

’’ جلنے والے تیر ا منہ کالا، محنت کر حسد نہ کر‘‘

اب اس سے ایک بات تو واضح تھی کہ یہ رکشہ محترم ڈارائیور کی اپنی ملکیت نہیں ورنہ اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اپنی ہی شے کو حسد کی نگاہ سے دیکھے۔۔۔؟بہر حال ’’ توبہ استغفار ‘‘ ہمیں کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ کسی پر بد ظنی کریں۔۔۔؟

اب جبکہ پروگرام کے اختتام کے بعد خاکسار واپس گھر پہنچا تو دل والی بات نے تو جیسے دل میں گھر ہی کر لیا ہو اور دل تھا کہ ابھی تک وہیں الجھا ہوا تھا۔چنانچہ جب قومی بھلائی کے ارادے سے سوچا تو خیال آیا کہ دل کا یہ کاروبار تو جان لیوا ہے۔۔۔ ۔ گردے تو جسم میں دو ہوتے ہیں ایک کسی کو دے بھی دیا جائے تو کام چلتا رہتا ہے مگر دل کے معاملہ میں یہ سودے بازی اور سخاوت تو سیدھی سیدھی خودکشی بنتی ہے۔ لہذا اس امر کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور حکومت کو اس سلسلہ میں کوئی بہت ہی سخت قدم اٹھانا چاہیے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ’’تحفظ دل آرڈیننس ‘‘ کے نام سے کوئی قانون بنا دیا جائے اور اتفاق رائے سے تمام ایوانوں میں مذمتی قراردادیں تو فوراََ منظور کر لینی چاہئے ہیں۔ علاوہ ازیں مزید پختگی اور عمل در آمد کے لیے دو چار کمیٹیاں اور کمیشن تو پہلی ہی فرصت میں تشکیل دے دینے چاہییں کیونکہ دل کا معاملہ کوئی معمولی بات تو ہے نہیں۔!

پھر دل ہی دل میں خیال آیا کہ ان دنوں اس معاملہ کی شنوائی ضرور ہو گی کیونکہ ہمارے محترم وزیر اعظم سے زیادہ دل کی اہمیت سےبھلا  کون واقف ہو سکتا ہے کہ جن کا جب جب وطن عزیز میں دل نہیں لگتا تب تب دل لگوانے مطلب دل کا چیک اپ کروانے دیار ِغیر جا پہنچتے ہیں۔ اس بار بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔ سنا ہے پانامہ لیکس نےدل کی دھڑکنیں کچھ زیادہ ہی تیز کر دی ہیں۔ تاہم چھوڑیں اس بات کو جانے دیں ۔سیاست سے ہمیں کیا لگے۔

ہاں جی تو بات ہو رہی تھی دل کی۔ تو اب ہم سوچتے ہیں کہ دل کی اس قدر ناقدری کا ذمہ دار آخر ہے کون۔۔؟

چنانچہ لمبے غور و فکر کے بعد ذہن میں محکمہ تعلیم کا نام آیا۔ وہ ایسے کہ ہمارے ملک میں لاکھوں بچے تو ایسے ہیں جو تعلیم سےکلی طور پر محروم رہ جاتے ہیں اور یوں ان کو دل کی قدر و قیمت اور افعال و کردار کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا بڑے ہو کر وہ اسے مسکراہٹ جیسے ہلکے داموں فروخت کرتے پھرتے ہیں یا پھر ایسے ہی گلیوں بازاروں میں تحفۃً  بانٹتے پائے جاتے ہیں۔ باقی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر کچھ زیادہ ہی دریا دل بن جاتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہمارے محکمہ تعلیم کی فراخ دلی کی بدولت ہماری یونیورسٹیوں میں اعلیٰ درجہ کا مخلوط تعلیمی نظام رائج ہے جس کی وجہ سے وہاں اہل دل کھنچے چلے تو آتے ہیں مگر بعد میں دل پر قابو رکھنا بھول جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض تو بیچارے دل کی اس پھسلا پھسلی میں کچھ ایسے پھسلتے ہیں کہ اے گریڈ سے سیدھے ایف گریڈ تک جا پہنچتے ہیں اور بجائے دل کے ڈاکٹر بننے کے دل پر مبنی گانوں تک محدود رہ جاتے ہیں۔۔ تاہم تیسری قسم ہمارے جیسے عظیم سرکاری اداروں کے عظیم اساتذہ کے عظیم طلباء کی بھی ہوتی ہے جو دل کی دل سے قدر کرتے ہیں اور چند نمبروں کے عوض دلوں کی چیر پھاڑ کے ہولناک کھیل کو گناہ کبیرہ قرار دیتے ہیں اور ہر سال لاکھوں دلوں کو لقمۂ تجربات سے بچا کر ناموس دل کی حفاظت کا فریضہ بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں بھی میٹرک کے نصاب میں دل کے آپریشن کا حکم ملا تھا تاہم ہمارے استاد محترم جو کہ انتہائی زندہ دل آدمی تھے نے نہ صرف خود دل کی اہمیت کو برقرار رکھا بلکہ ہمیں بھی اس دل آلود فعل سے دور رکھا۔ دوسری خوش قسمتی یہ کہ ہمیں دلوں کی قتل گاہ اور آلات قتل ہی میسر نہ تھے۔ لہٰذا ہماری پوری کی پوری کلاس نے بیالوجی کے پچیس پچیس نمبروں کو داؤ پر لگا دیا اور دل کے تقدس پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی کیونکہ دل تو دل ہے انسان کا ہو یا مینڈک کا۔۔۔!

لہٰذا ہم اپنے محترم وزیر تعلیم صاحب سے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ جیسی فراخ دلی انھوں نے کمرشل پلاٹس کو اپنے عزیز و اقارب میں بانٹنے میں دکھائی ہے ویسی ہی کچھ تعلیم کے معاملہ میں بھی ہو جائے۔ اس سے ایک تو یہ فائدہ کے کئی دل سنور جائیں گے اور دوسرا یہ کہ شائد آپ کے کچھ نیک کام دیکھ کر نیب کے دل میں بھی رحم آجائے جو آپ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔

اف یہ دل بھی کیا چیز ہے۔۔۔؟

 اب آخر میں میں اپنے وطن عزیزکے ہونہار نوجوانوں کی خدمت میں دل کا اک بہت ہی اہم فعل پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنا دل اپنے قابو میں رکھیے گا کیونکہ دل ہوگا تبھی تو ’’دل والے دلہنیا لے کرجائیں گے‘‘۔۔۔!  یہ الگ بات ہے کہ آجکل دل والوں کی نسبت دبئی والوں کو دلہنیا ملنے کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں تاہم سنتے رہتے ہیں کہ ابھی بھی بعض اہل دل باقی ہیں جو دھن کی بجائے دل کی قدر کرتے ہیں۔

تاہم بد قسمتی سے میرے مشاہدہ میں ابھی تک ایسا کوئی نہیں آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments