فکری آلودگی اور مفروضے کی جیت


پاکستان کو تعطیل کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ماحول کی ترشی اور آلودگی اتنی ہے کہ سانس تک لینا دشوار۔ اس آلودہ ماحول نے کچھ مفروضوں اور بے بنیاد التباسات کو سچائی کی شکل دے دی ہے۔ ان سے سرتابی کی مجال کسے!

پہلی سچائی یہ ہے کہ’’ دولت مند ہونا گندا کھیل ہے‘‘ ۔ یقین کیا جاتا ہے کہ اگر کسی کے پاس دولت ہے تو ناجائز ذرائع سے ہی حاصل ہوئی ہوگی۔ آج کے پاکستان میں ہمارا سماجی ضمیر یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ خوشحالی دیانت دارانہ طریقے سے بھی آسکتی ہے ۔ جس کسی کے پا س بھی رقم ہے ، اس نے ضرور دوسروںکی جیب سے نکالی ہوگی ۔ چنانچہ کامیاب کاروباری اور پیشہ ورانہ افراد پر شک کیا جاتا ہے ۔

’’کامیابی کے لئے مکاری ضروری ہے‘‘ ۔ یہ بات بھی کم و بیش یقین کا درجہ رکھتی ہے کہ ترقی کے لئے اخلاقیات اور اصولوں کو بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے ۔ آگے بڑھنے کے لئے ناجائز حمایت اور دوسروں کی حق تلفی ضروری ہے ۔ سیدھی راہ پر کامیابی کی منزل موجود نہیں۔ ٹیڑھے راستے اور ترچھی راہیں ہی بلندی کی طرف جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے ہاں یہ بات طے ہوچکی کہ اقربا پروری، بے جا حمایت اور بے اصولی کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں۔ اگر آپ کے پاس اتھارٹی ہے تو یقین کیا جاتا ہے کہ آپ اسے ضرور اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرتے ہوںگے ۔ ہمارے ہاں عہدہ اور اچھی

شہرت ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ بڑی سیٹ پر آپ اچھی شہرت رکھ ہی نہیں سکتے۔ کوئی بھی آپ پر کیچڑ اچھال سکتا ہے ، اور یقین مانیں، ایک مرتبہ جب کوئی لیبل آپ پر چسپاں ہوجائے، یا کردیا جائے تو وہ زندگی بھرجان نہیں چھوڑتا۔

اس کے علاوہ ہمارا وفاداری کا تصور بش کی دھمکی سے مشتق ہے ، ’’ تم ہمارے ساتھ ہو، یا ہمارے خلاف ہو۔‘‘ہماری قومی زندگی کا ہر پہلو اسی حکمت کا سند یافتہ ہے ۔ یہاں جواز، دلیل، غیر جانبداری، معروضی بحث یا مثبت اور تعمیری تنقید کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ہمہ وقت کسی جنگی محاذپر صف آرا ہیں۔ ہمارے اوہام کی کھنچی ہوئی لکیر کے اُس طرف تمام دشمن ہیں، اِس طرف تمام دوست۔ آپ کو ایسا کوئی لفظ بولنے یا حرکت کرنے کی اجازت نہیں جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے۔ اگر آپ قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے حامی ہیں، تو خبردار، آپ عدلیہ میں اصلاحات لانے ، یا سوموٹو اختیارات کے استعمال کو محدود کرنے کی بات نہ کریں۔ نہ ہی آپ فیصلو ں کو عقلی اور قانونی دلیل پر پرکھنے کی جسارت کریں۔ ایسا رویہ عدلیہ مخالف سمجھا جائے گا۔

سیاست بھی وفاداری کے اسی تنگ قافیے میں قید ہے۔ اگر آپ کسی ایک جماعت کی حمایت کرتے ہیںتو آپ کی وفاداری غیر مشروط ہونی چاہیے ۔ آپ پارٹی کے سربراہ کے ساتھ وفاداری پر حلف اٹھاچکے ہوں۔ آپ اُس کے ذاتی افعال اور الفاظ کا ہر حال میں دفاع کریں گے، چاہے آپ کو کتنے ہی سفلی پن کا مظاہرہ کیوں نہ کرنا پڑے۔ دلیل کی بنیاد پر حمایت یا تنقید کی کوئی جگہ نہیں۔ ایشو کی بنیاد پر موقف اختیار کرنے کا دور لد چکا۔ ضروری ہے کہ آپ ناقدانہ جائزہ لینے کی بجائے اپنی نظروں کو بلیک اینڈ وائٹ دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ اسی میں بہتری ہے ۔ جواز تلاش کرنے کی کوشش بہت مہنگی ثابت ہوگی ۔

یہ فکری بوجھل پن ہمیں اذیت پسند بنا رہا ہے ۔ جب کسی پر الزامات لگتے ہیں، کیچڑ اچھالا جاتا ہے ، اُس کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے ، اُسے توہین آمیز الفاظ و القابات سے پکارا جاتا ہے تو ہماری اذیت پسندی طمانیت محسوس کرتی ہے ۔ اگر الزام اخلاقی نوعیت کا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حقائق کیا تھے؟ کیچڑ اچھالا جاچکا ، اور اب اس کے داغ شاید ہی دھل پائیں۔ہمارا سماج ایک ایسا تھیٹر بن چکا ہے جس میں قرون وسطیٰ کے تمثیلی ڈراموں کی طرح مجسم اچھائی اور مجسم برائی کے درمیان جنگ جاری ہے ۔ہر قسم کی جنگوں میں کچھ اجتماعی نقصان ہوتا ہے ۔ چنانچہ اگر ایک طرف بیٹھے ہوئے کچھ افراد کی حب الوطنی، آزادی، شخصی وقار، ایمانداری اور کردارداغدار ہوجائے تو کوئی بات نہیں، جنگ میں ایسا ہوجاتا ہے۔ اب اس کی تلافی کی توقع نہ کریں ۔ اگر آپ غلط مورچے کے نزدیک پکڑے جاتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ آپ قصور وار ہیںجب تک آپ خود کو بے گناہ ثابت نہیںکرلیتے ۔ مہذب دنیا کا طریق اس کے برعکس ہے ۔ وہاں آپ کو جرم ثابت ہونے تک بے گناہ سمجھا جاتا ہے ۔

اس نظام میں ہم قانون میں درج طریق ِ کار کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ سزا کے لئے ٹرائل وغیرہ میں وقت ضائع کرنا سست اور غبی اقوام کی عادت ہے ۔ ملزم کو سزا بعد میں ہوتی رہے گی، پہلے اُسے بیچ چوک میں برہنہ کرکے اُس کی عزت اور وقار کا جنازہ نکالیں، باقی رہی ثبوت کی بات تو اگر ضرورت پڑی تو دیکھا جائے گا۔ آج مستعمل نیا نظریہ ضرورت یہی ہے ۔ مثال کے طور پر نیب کے طریق ِکار پر غور کریں۔ اس کی تاریخ سے سبھی واقف ہیں کہ کس طرح اسے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے لئے استعمال کیا گیا ، لیکن اس کے باوجود میڈیا اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہا ہے جیسے ایمانداری کی جانچ اسی کا استحقاق ہو۔ یہ جسے چاہتا ہے گرفتار کرلیتا ہے ۔ اس کے فوراً بعد اربوں روپوں کی برآمدگی کی پریس کانفرنس کی جاتی ہے ( اور پریس کانفرنس کو ہی ثبوت اور سچ مانا جاتا ہے)۔ اس کے بعد ملزم کی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے تصویر جاری کی جاتی ہے ، اور یوں احتساب کا عمل تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے ۔ آپ کی کیا مجال جو آپ تفتیش کے دوران معلوم کیے گئے حقائق کو سامنے لانے کی بات کریں۔

آج کل غلغلہ ہے کہ نیب نے سنجیدگی سے ’’بڑی مچھلیوں ‘‘ پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے ۔ گزشتہ ماہ بریکنگ نیوز یہ تھی کہ اس نے سابق سیکرٹری اور چیئرمین سی ڈی اے عنایت امتیاز الٰہی کو گرفتار کیا ہے ۔ نیب نے اسے 431ملین روپوں کی بدعنوانی کا کیس قرار دیا ۔ چیئرمین نیب نے مسٹر الٰہی کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ احتساب عدالت نے نیب کو ملزم کاسات روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔ نیب نے اُنہیں سات روز تک لاک اپ میں رکھ کر تفتیش کی، اور پھر اڈیالہ جیل بھیج دیا ۔ آخر کار، اپریل کے آغاز میں اسلام آبادہائی کورٹ نے اُنہیں ضمانت دے دی۔

وہ افراد جو امتیاز الٰہی کو ذاتی طو رپر نہیں جانتے ، یا بطور ایک سرکاری افسر ان کی شہرت سے واقف نہیں، اور جنہوں نے صرف پریس کے ذریعے اُن کی گرفتاری کے بارے میں سنا ہے ، وہ یقین کرچکے ہوں گے وہ بدعنوانی میں ملوث ہیں، چنانچہ اُنہیں اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اب اگر نیب اُن کے خلاف کوئی ریفرنس فائل نہیں کرتا، یا وہ ٹرائل کے دوران بے گناہ ثابت ہوتے ہیں، لیکن وہ عوام کی نظروں میں معتوب ہوچکے ۔ ا س ’’عوامی تادیب ‘‘ کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ گرفتاری اور دنیا کو پریس کانفرنس کے ذریعے بتانا کہ وہ کرپٹ بیوروکریٹ ہیں، کافی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے نیب نے اُن کے شخصی وقار اور عز ت کو پامال کردیا۔ اب جو بھی فیصلہ ہو، اس نقصان کی تلافی نہیں ہوپائے گی ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ضمانت کے فیصلے میں مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے ۔ چیئرمین سی ڈی اے کے طور پر امتیاز الٰہی نے 2009 ء میں زیرو پوائنٹ کے قریب ایک ثقافتی مرکز کی تعمیر روکنے کا حکم دیا تھا۔ اُنھوںنے دیکھا کہ یہ منصوبہ کسی فیزبیلٹی کے بغیر بنایا گیا ہے ، نیز یہ ماحولیات پر بھی منفی اثرات ڈالے گا۔ اور پھر مالی طور پر بھی اسے فعال رکھنا ممکن نہیں کیونکہ اس علاقے میں پہلے بھی کچھ ایڈیٹوریم اور کانفرنس ہالز ہیں جنہیں بمشکل ہی استعمال کرنے کی نوبت آتی ہے ۔ چنانچہ سی ڈی اے کے فنڈز کا کوئی بہتر مصرف ہونا چاہیے ۔ اُنھوںنے حکم دیا کہ اس منصوبے کو روک کر اس کی تعمیر کی دلیل اور مالیاتی پہلو کا جائزہ لیا جائے ۔

2014 ء میں آڈیٹر جنرل نے بھی اس منصوبے کی غلط پلاننگ کی نشاندہی کی ، اور پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے AGPR کے پندرہ دسمبر 2017 ء کو لکھے گئے ایک خط کا حوالہ دیا ۔۔۔’’دراصل نیب نے اس منصوبے کی غلط پلاننگ کی تحقیقات کرنی ہیں، نہ کہ اس پر کام روک دینے کی۔‘‘ لیکن نیب نے آگے بڑھ کر اُس سرکاری افسر کو گرفتار کرلیا جس نے دس سال پہلے اس غلط منصوبے پر ہونے والے کام کو روکنے کا حکم دیا تھاتاکہ عوامی فنڈز کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم نامہ مزید کہتا ہے ۔۔۔’’نیب حکام نے عدالت کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ مدعی کے خلاف رشوت، بدعنوانی یا غیر قانونی مفاد کا کوئی الزام نہیں، اور نہ ہی اس نے سرکاری خزانے کونقصان پہنچایا ہے ، یا کسی اور شخص کو غیر قانونی طور پر فائدہ پہنچایا ہے یا رعایت دی ہے ، جس کا نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 میں ذکر ہے‘‘ ۔

ضمانت کے فیصلے میں عدالت کیس کے میرٹ کا کھوج نہیں لگاتی ، لیکن یہ بات واضح ہے مسٹر الٰہی کے خلاف کیس صرف یہ تھا کہ اُنھوں نے ایک کام (جو اُن کے نزدیک غلط تھا) کو روکنے کا حکم دیا تھا۔

37 سال سرکاری ملازمت کرنے والے امتیاز الہٰی کو آدھی رات کے وقت اُن کے گھر سے گرفتار کیا گیا ، عدالت میں ہتھکڑیاں لگاکر پیش کیا گیا، نیب نے سا ت روزہ جسمانی ریمانڈپر اپنے لا ک اپ میں رکھا، اور پھر جیل بھیج دیا۔ جرم کیا تھا؟ایک ڈولپمنٹ اتھارٹی کے اہم افسر ہونے کے ناتے اُنھوں نے ایک تعمیر کو روکنے کا حکم دیا تھاتا کہ عوامی فنڈز کا کوئی اور بہتر مصرف ہو ۔ لیکن کسی کوبھی اس حقیقت میں دلچسپی نہیں ہے ۔ اگر آپ اُن کے نام کو گوگل پر سرچ کریں تو آپ کو ایک ایسے شخص کے بارے میں پڑھنے کو ملے گا جسے کئی سو ملین روپوں کی بدعنوانی کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ اُنہیں باقی زندگی اپنی صفائیاں پیش کرتے گزارنی پڑے گی۔ یہ افسوس ناک واقعہ کیا سبق دیتا ہے ؟پاکستان میں کچھ نہ کرنا کوئی جرم نہیں۔ مفت میں تنخواہ لے کر قومی خزانہ اجاڑ دیں، کوئی بات نہیں۔ لیکن آپ کی فعالیت اور فیصلے آپ کے لئے زنجیر ثابت ہوں گے ۔ چنانچہ ہماری ریاست میں ’’احتساب ‘‘ کے اس میزان پر وہی سرکاری افسر اچھے ہیں جو کچھ نہ کریں۔ پاکستان، جو اپنے آپ سے حالت ِ جنگ میں ہے ، میں الزام تراشی اور اس کے نتیجے میں ہونے والا اجتماعی نقصان ہی احتساب کی دکھائی دینے والی واحد شکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar