دھڑا دھڑ طلاقیں‌ کیوں‌ ہو رہی ہیں؟


ٹینا اور اس نے مل کر مکان خریدا ہوا تھا۔ امریکی شادی شدہ جوڑا اپنے تمام اثاثے کا برابر کا شریک ہوتا ہے جس میں‌ مکان، گاڑی، سارا سامان اور قرضہ سب شامل ہیں۔ گھر کی ہر مہنے پیمنٹ جاتی ہے اور سب یہی چاہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ تک وہ پے آف ہوجائے تاکہ وہ اپنے بڑھاپے کے دن اس میں‌ گزار سکیں۔ ٹینا ایک نہایت زہین خاتون تھی اور ایک دقیانوسی کیتھولک گھرانے سے ہونے کے باوجود اس کے سائنسی خیالات تھے۔ اس کے شوہر کا دماغ بچپن کے سکھائے ہوئے اسباق سے نہیں نکلا تھا لیکن وہ جتنا ہوسکے وہ اس موضوع پر بحث سے گریز کرتی۔

اس کے شوہر نے اس کو بتائے بغیر مکان بیچ کر اپنے کریڈٹ کارڈز کا قرضہ اتارنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن ٹائٹل کمپنی کے باہر گاڑی روکی، اس کو اندر لے گیا اور تمام کاغذوں پر دستخط کرائے۔ ٹینا نے کہا کہ میں‌ ایک تحقیق دان ہوں‌، میرا سائکالوجی اور قانونی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنا اور ان کو درست طریقے سے سارے ڈپارٹمنٹ کے لئیے جمع کرانا روز کا کام ہے۔ میں‌ 10 سال کی بچی نہیں‌ تھی کہ مجھے پتا نہ چلے کہ وہ کیا کررہا ہے۔ اس نے میری زندگی کو اپنے فائدے کے لئیے استعمال کیا اور جواب میں مجھے وہ نہیں‌ملا جس کے لئیے میں‌ نے اس کا تمام زندگی کے لئیے ہاتھ تھاما تھا۔ کہنے لگی، طلاق کے بارے میں‌ میں‌ کئی سال سے سوچ رہی تھی لیکن اس دن جم نے اپنے تابوت میں‌ کیلیں‌ لگا دی تھیں۔

ایک بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو ماں کے پیٹ میں‌ گذرے ہوئے 9 ماہ کے اثرات کے ساتھ آتا ہے۔ اگر اس کی ماں‌ اسٹریس محسوس کر رہی ہو تو وہ بھی اسٹریس محسوس کرتا ہے۔ جو وہ کھاتی ہے اس کو یہ بچہ بھی چکھتا ہے۔ پہلی حس سننے کی ہوتی ہے جس سے وہ اپنی ماں کے دل کی دھڑکن سنتا ہے اسی وجہ سے دنیا کے ہر علاقے کے انسانوں‌ نے اپنے اپنے دھن اور رقص ترتیب دئے ہیں۔ دنیا میں‌ آنے سے پہلے ہی کافی ساری انفارمیشن وہ سیکھ جاتا ہے جس سے اس کے دنیا میں‌ سروائول میں‌ مدد ملے۔ جن خواتین پر چیخ و پکار اور مار کٹائی ہو رہی ہو، ان کے پیٹ میں‌ موجود بچے پر ان تمام باتوں‌ کا اثر ہوتا ہے۔ ہر صدمہ دماغ پر منفی اثرات ڈالتا ہے اور یہ لوگ تمام عمر کے لئے مریض بن جاتے ہیں۔

دنیا میں‌ تشدد اور ریپ کی بہت کہانیاں مشہور ہیں لیکن وہ زیادہ تر خواتین کے بارے میں‌ ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جنوب ایشیا میں‌ لڑکوں‌ اور مردوں‌ پر جسمانی، ذہنی یا جنسی حملے اکثر سامنے نہیں‌ لائے جاتے۔ لوگ باہر سے اپنے آپ کو بڑا اور طاقتور دکھانے کے لئے اس بات کو نہ صرف دوسروں‌ سے چھپاتے ہیں‌ بلکہ انہوں‌ نے اپنے آپ سے بھی اعتراف نہیں‌ کیا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ دبانے سے یہ زخم مندمل نہیں‌ ہوتے بلکہ دیگر دماغی اور رویے کے مسائل کے طور پر ابھرتے ہیں۔ ایک ماں‌ اپنی اولاد کے لئے اپنے حواس قائم رکھنے کی آخر حد تک کوشش کرتی ہے لیکن باپ اپنے پاگل پن میں‌ اتنا لحاظ کرتے دکھائی نہیں‌ دیتے۔

امریکہ میں‌ شادی ایک قانونی بندھن ہے جس میں‌ ایک فریق دوسرے کے اچھے برے فیصلوں‌ کا ذمہ دار ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب طلاق کے پروسس میں‌ تھے تو ان کی بیوی نے انتقاماً ان کے کریڈٹ کارڈ پر ساٹھ ہزار ڈالر کی شاپنگ کرلی۔ وہ اس بارے میں‌ کچھ نہیں‌ کرسکتے تھے۔ جوائنٹ اکاؤنٹ ہونے کی وجہ سے جو بھی پیسے ادا کرسکتا ہو، کمپنیاں‌ اسی کے پیچھے آتی ہیں۔ جو لوگ سولہ سال کا ہوتے ہی اپنے بچے کو شادی کے بندھن میں‌ باندھ دینا چاہتے ہیں ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ امریکی شادی سے ان بچوں‌ کی تمام زندگی برباد ہوسکتی ہے۔ وہ دنیا میں‌ بہت کچھ کرسکتے تھے، آگے بڑھ سکتے تھے۔ کم عمری میں‌ شادی کریں اور بچے پیدا کرنے لگ جائیں۔ تعلیم اتنی نہ ہو کہ کوئی ڈھنگ کی نوکری ملے اور ممالک میں‌ ویلفئر سسٹم پر بوجھ بن جائیں تو پھر ہم دنیا میں‌ عزت مانگنے کس منہ سے جا رہے ہیں؟

قانون دان صاحب کی کہانی

ایک صاحب جو اب 70 سال کے ہیں، ان کی تین شادیاں‌ ہوچکی ہیں۔ یہ صاحب میرے مریض ہیں‌ جن کی بیماری کو میں‌ نے تشخیص کیا اور ان کو دوا دی۔ انہوں‌ نے واپس آ کر کہا کہ میں خود کو اٹھارہ سال کا محسوس کرنے لگا ہوں اور اتنا بہتر میں‌ نے اپنے آپ کو کتنے ہی سالوں‌ سے محسوس نہیں کیا۔ میری بیگم کہتی ہیں‌کہ مجھے بھی وہی دوا دلا دیں جو آپ لے رہے ہیں۔ یہ سن مجھے خوشی ہوئی کیونکہ ایک ڈاکٹر تبھی کامیاب ہوگا جب اس کے مریض بہتر ہوں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ آرتھوڈاکس عیسائیت طلاق کی اجازت نہیں‌ دیتی۔ خاص طور پر کیتھولک طلاق کے نہایت خلاف ہیں۔ کہنے لگے میں‌ ایک عیسائی آدمی ہوں‌ لیکن پھر بھی میری دو طلاقیں‌ ہوچکی ہیں۔ پہلی بیوی کے ساتھ 24 سال رہے۔ ان خاتون کی یہ پرابلم تھی کہ ہر سچوئیشن میں وہ کچھ نہ کچھ تنقید کرتی رہتی تھیں اور جہاں‌ بھی لے جاؤ، جو بھی دلا دو کبھی خوش نہیں‌ رہیں۔ ان کے پاس اچھا گھر بھی تھا، گاڑیاں‌ بھی تھیں، صحت بھی ٹھیک تھی، اتنا پیسہ تھا کہ وہ اپنی ضرورت کی ہر شے خرید سکتے تھے۔ لیکن ان کی پہلی بیگم کو گلاس ہمیشہ آدھا خالی دکھائی دیتا تھا۔ آخر تنگ آکر انہوں‌ نے ان خاتون سے طلاق لے لی۔ اب جن خاتون کے ساتھ شادی شدہ ہیں ان کے ساتھ یہ خوش ہیں۔ کہنے لگے میں‌ ان کو پچھلے تیس سال سے جانتا تھا، ہم ساتھ میں‌کام کرتے تھے ، کبھی آگے چل کر ہماری آپس میں‌ شادی ہوجائے گی یہ پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔ دونوں میاں‌ بیوی پچھلے 17 سال سے ہنسی خوشی زندگی گذار رہے ہیں۔ کہنے لگے میں‌ اپنی ساری زندگی میں‌ کبھی اتنا مطمئین نہیں‌ رہا جتنا اب ہوں۔ اگر آج بھی پہلی بیوی کے ساتھ ہوتا تو رو رو کر میری زندگی بسر ہورہی ہوتی، شاید ابھی تک میں بیماریوں کا شکار ہوکر مر بھی گیا ہوتا۔

ہمارے ایک بہت اچھے دوست ہیں جو پاکستان سے ہیں، وہ اپنی امریکی بیوی سے بچھلے 30 سال سے شادی شدہ ہیں۔ کہتے ہیں میں‌ ایک حاسد شوہر ہوتا تھا اور اگر کوئی میری بیوی سے ہاتھ ملا لے یا بات کرے تو میں‌ اس سے بہت لڑائی کرتا تھا۔ معلوم نہیں‌ اس خاتون نے کیسے مجھے برداشت کیا۔ اب میں‌ مڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں‌ کہ ایسی کوئی بڑی بات بھی نہیں‌ تھی۔ ایک نئے کلچر میں‌ اور ماحول میں‌ ڈھلنے میں‌ انسان کو وقت لگتا ہے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو سمجھا اور ضروری کمپرومائز کئے جس وجہ سے وہ آج بھی ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3