لاہور میں پی ٹی آئی کا ناکام جلسہ اور میرا چیلنج


لاہور میں پی ٹی آئی نے اپنے پاور شو کے لیے مینار پاکستان میں میدان سجانے کا فیصلہ کیا۔ ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے سیاسی حلقوں کے متوقع ٹکٹ ہولڈرز کی دوڑ میں شامل امیدواروں کے لیے کڑی آزمائش کا وقت تھا۔

راقم عملی سیاست میں ایک ادنی کارکن ہونے کی وجہ سے زمینی حقائق، انتخابی عمل کی پیچیدگیوں، سیاسی معاشرتی حرکیات پر گہری نظر رکھتا ہے۔

لاہور جلسے میں پی ٹی آئی کے پاس آخری موقع تھا کہ وہ اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں۔ پی ٹی آئی کو اچھی طرح اپنی سیاسی حثیت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ ہر انتخابی حلقے میں چاہے وہ صوبائی ہو یا قومی ان کے ٹکٹ کے وہ امیدواران جن کو گذشتہ 5 سال سے لالی پاپ دیا گیا ہے اور پچھلے پانچ سال سے ہی پی ٹی آئی ان کے مالی و افرادی وسائل کا بے دریغ استعمال بلکہ استحصال کرتی رہی ہے۔

متوقع امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ بندے لانے کو کہا گیا۔ انہیں کہا گیا جو زیادہ بندے لائے گا ٹکٹ اسے ملے گا۔ اس کے باوجود پنجاب اور بالخصوص لاہور سے بری طرح ناکامی ہوئی۔ وہ لوگ جو پانچ سالوں سے ہڑتالوں لاک ڈاون اور ضمنی الیکشنز میں پیسے لگا لگا، گاڑیوں کا بندوبست کر کر کے اور بندوں کی منتیں کر کر کے تھک چکے تھے انہیں آخری مرتبہ پھر امتحان میں ڈالا گیا۔

پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جن پہ انتخابی عمل ہوتا ہے ان کی مجموعی تعداد 848 ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ قومی اسمبلی 271۔ پنجاب 297، سندھ 130۔ کے پی کے 99، بلوچستان 51۔

ہر انتخابی حلقے میں پی ٹی آئی کے اوسطا متوقع ٹکٹ ہولڈرز یا contestants کی تعداد 5 ہے۔ اگر ہر متوقع امیدوار 500 لوگ بھی ساتھ لاتا تو 2120000 ہوتی۔ جبکہ پی ٹی آئی توقع لگائے بیٹھی تھی کہ دس لاکھ لوگ اکٹھے کر لئے جائیں گے۔ اگر آپ یہ فرض کرلیں کہ ہر انتخابی حلقے سے ٹکٹ ہولڈر صرف ایک ایک ہے اور وہ پانچ سو بندے ساتھ لاتے تو 424000 لوگ اکٹھے ہوتے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے حمایتی صحافی اور میڈیا گروپس نوے ہزار سے ایک لاکھ لوگوں کے اجتماع کی تصدیق کررہے تھے جبکہ محتاط اور غیر جانبدار ذرائع کیمطابق یہ تعداد 65000 سے کسی صورت متجاوز نہیں تھی۔ اگر تعداد نوے ہزار ہی مان لی جائے تو فی حلقہ اوسطا آنے والے لوگوں کی تعدد 107 بنتی ہے۔ پی ٹی آئی اور خان کو علم ہےتھا کہ چند روز میں انہیں ٹکٹ اناونس کرنے ہیں اگر وہ یہ جلسہ ٹکٹ اناونس کر نے کے بعد کرتے تو جلسے میں لوگوں کی تعداد 90 ہزار کے قریب تھی 40 ہزار بھی نہ ہوتی۔

ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو 2011 تک خان صاحب کے نعرے انتہائی پرکشش اور ان کے لگائے گئے الزامات میں صداقت جھلکتی دکھائی دیتی تھی۔ 2011 میں مینار پاکستان کے جلسےمیں عمران خان کے اردگرد نظریاتی کارکن، مڈل کلاس آئیڈیلسٹک لوگ موجود تھے۔ جو بقول ان کے جو اس وقت کی دونوں سیاسی جماعتوں کو status quo کی نمائندہ کہتے ہوئے پاکستان کے مسائل کی وجہ بھی قرار دیتے تھے۔ بالخصوص وہ نوجوان نسل جو مشرف کی آمریت میں شعور کو پہنچی اور نوے کی دہائی کی سیاسی صورتحال سے نابلد اور پاکستان میں سیاسی شعور کی پختگی کے ارتقائی عمل سے نابلد تھی وہ عمران خان کے idealism کا شکار ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ 2011 میں ہونے والے جلسے میں عوامی شمولیت نسبتا بہتر تھی۔

سرزمین پاکستان میں آمریت پسند دانش فروشوں کی کمی نہیں۔ چنانچہ وہ ہر لحظہ لوگوں کو سیاسی جماعتوں سے۔ سرزد ہونے والی غلطیوں اچھالتے۔ علمی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان غلطیوں کو مخصوص۔ فہم عطا کرتے ہیں، تاکہ نوجوان قاری جو سیاسی تاریخ سے نابلد ہے وہ اس جھوٹ کی متواتر دہرائی سے اس کو پہاڑے کی طرح ازبر کر لے۔ لیکن یہی جمہور دشمن دانش گرد اس ارتقائی عمل کا ذکر نہیں کرتے جن سے گزر کر میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو متین، پختہ کار اور معاملہ فہم سیاست دان بنے۔ جب ملک میں گیارہ گیارہ سال لگاتار آمریت رہے اور لیڈر شپ بھی آمریت کی کیاریوں میں پروان چڑھے تو انہیں عوامی جمہوری مزاج میں ڈھلتے اتنا وقت تو لگتا ہے۔

میں نے جلسے والے دن ایک ویڈیو اپنی پروفائل پہ اپلوڈ کی تھی جو لاکھوں بار دیکھی گئی اور ہزاروں بار شئیر ہوئی، جس میں لاہور فیروزپور روڈ پر ریلی کی حالت دکھائی گئی تھی۔ ن لیگ کو کبھی بھی چارسدہ، مردان، پشاور، راولپنڈی، فیصل آباد یا گوجرانوالہ میں جلسہ کرتے وقت لاہور سے لوگ لے جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

2013 تک پی ٹی آئی اور عمران خان کی تمام تہمتیں اور الزمات بڑے پرکشش معلوم ہوتے تھے۔ 2013 کے الیکشن کے بعد 2018 میں پی ٹی آئی محض دوسروں کے عیوب پر الیکشن نہی جیت سکتی بلکہ اپنے محاسن گنوانے ہوں گے کیوں کہ 2018 میں الیکشن کارکردگی کی بنیاد پہ ہی جیتا جا سکتا ہے۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے ووٹر کے پی کے پنجاب اور سندھ حکومتوں کا موازنہ کرے گا۔ ترقیاتی کام معاشی ترقی انسانی نمو صحت تعلیم کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کے میدان میں بھی حکومتوں کو پرکھا جائے گا۔ سابقہ الیکشن میں کیے گئے انتخابی وعدوں کی پڑتال ہو گی۔

اگرچہ اس وقت میڈیا عدلیہ اور ادارے مسلم لیگ ن کے خلاف متحد نظر آتے ہیں مگر پھر بھی عوام میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت کو نقصان پہنچانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور ان کے مشیران نے بہت سی فاش غلطیاں کیں۔ پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے پی پی پی کے مایوس سابقہ الیکٹیبلز کو اندھا دھند پارٹی میں مرکزی حثیت کے ساتھ شامل کیا گیا۔ یہ بھی نہیں دیکھا گیا اس بندے پر کرپشن کے کتنے سنگین الزامات یا مقدمے ہیں اور ان کی عمومی عوامی شہرت کیسی ہے۔
یہ ایک فاش غلطی تھی جو اہل حل و عقد سے سرزد ہوئی۔ کیونکہ اب جو دباؤ مسلم لیگ ن کے الیکٹیبلز پر ڈالا جارہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن اے وفاداری تبدیل کریں وہ بارآور ثابت نہیں ہو پارہا کیونکہ وہاں پر پہلے ہی ان کے سیاسی حریفوں کو جو زیادہ تر پی پی پی کے سابقہ الیکٹیبلز تھے انہیں منتقل کیا جاچکا تھا۔ اب جس پارٹی میں پہلے ہی سیاسی حریف بیٹھا ہو وہاں وہ جاکر بیک بینچر تو بنے گا نہیں نہ ہی الیکشن لڑنے کے حق سے محروم ہوگا تو یہ طاقتور لوگوں کے کم تر سیاسی شعور سے سرزد ہونے والی وہ غلطی ہے جسے سدھایا نہیں جاسکا۔ اب لوگوں کو آزاد امیدوار بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔

میرا چیلنج یہ ہے کہ پی ٹی آئی انتخابی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کے بعد دوبارہ اتنا جلسہ بھی مینار پاکستان پہ کرجائے تو مجھ سمیت کئی دوست سیاست سے تائب ہوجائیں گے۔ دوسرا ٹکٹ جاری کرنے کے بعد جن امیدواروں کو ٹکٹ نہیں ملے گا ان کو پارٹی سے وفادار رکھنے اور پارٹی کے نامزد امیدوار کیخلاف الیکشن لڑنے یا اس کیمخالفت کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوجائے جو کہ پی ٹی آئی کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بنے گی، مجھ سمیت میرے بہت سے دوست خان صاحب کے مرشدوں کی بیعت کرکے خان صاحب کے پیر بھائی بن جائیں گے۔ آخر بلڈی سویلینز میں اتنا ڈسپلن پیدا کرنا معجزے سے کم ہوگا کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).