کرپشن سے نہیں، کرپشن کی تحقیقات سے جمہوریت کو خطرہ ہے


کس ڈھٹائی سے سیاستدان قوم کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اور کس ڈھٹائی کے ساتھ قوم اپنے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے برے کارناموں کا دفاع کرتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیکھیں۔ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام کی اکثریت اپنے نمائندے منتخب کرتی ہے اور پھر وہ نمائندے دن رات عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں اگر کہیں پر کسی بھی عوامی نمائندے پر کوئی الزام لگتا ہے یا کوئی جھوٹ فراڈ ثابت ہوتا ہے تو وہ مستعفی ہوتا ہے۔ شرمندہ ہوتا ہے اور معافی مانگتا ہے۔ اور قانون کے مطابق اسے سزا ملتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ اگر کسی کی چوری پکڑی جائے تو وہ شور مچاتا ہے کہ مختلف اداروں نے اس کیچوری اس لیے پکڑی ہے تا کہ جس نظام کا وہ حصہ ہے اس نظام کو ختم کیا جائے۔ یعنی اس کے نزدیک اس کی ذات کل نظام ہے۔

کچھ عرصہ سے سپریم کورٹ میں کرپشن کیسز کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایسے ایسے ہوشربا انکشافات ہو رہے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ جس معاملے پر ازخود نوٹس لیا جاتا ہے۔ جس افسر پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ اقربا پروری اور کرپشن کی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں۔ جب کسی افسر سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنے رشتہ دار کو نوکری کیوں دلوائی؟ آپ نے فلاں پروجیکٹ میں کروڑوں کا غبن کیوں کیا تو وہ کہتا ہے کہ یہ سارا کچھ دراصل اسے بدنام کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور جناب جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہہے۔ یعنی ثابت ہوا کہ کرپشن سے نہیں بلکہ کرپشن کی تحقیقات سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔

گزشتہ دنوں وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ان کی بھی عزت ہے اور چیف جسٹس کو مخاطب کر کے انہوں نے کہا کہ ” enough is enough ” یعنی کرپشن کے خلاف جو کیس چل رہے ہیں اس سے ان کی عزت متاثر ہو رہی ہے۔ کان ترس گئے ہیں ان سیاستدانوں کی طرف سے کرپشن کے خلاف کسی عملی اقدام کی خبر سننے کو۔ کاش کوئی احسن اقبال، کوئی سعد رفیق یا کوئی خواجہ آصف اسمبلی میں حلف اٹھاتے ہی یا حکومت کے بنتے ہی کسی تقریب میں کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کرتے۔

کاش کسی منتخب عوامی نمائندے کی طرف سے خبر ملتی کہ اس نے کرپٹ افسروں کو سزائیں دلوانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ یا کبھی پتا چلتا کہ کسی وفاقی وزیر نے کرپٹ افسروں کو فارغ کرنے کا اعلان کر دیا اور اگلے دن خبر آتی کہ تین افسر معطل کر دیے گئے ہیں۔ یا کبھی ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلتی کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دو ممبران اسمبلی کو فنڈز میں ہیرا پھیری کرنے پر طلب کیا اور ان کے خلاف کیس نیب کو بھیج دیا۔ لیکن کیا کریں یہ باتیں تو خواب ہیں یہاں تو جب بھی خواہش ظاہر کی گئی کہ سیاستدانوں کو کوئی پرفارمنس دکھانی چاہیے تو ایک ہی جواب۔ وہی جملہ جسے سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ جناب بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ یعنی سیاستدانوں نے قسم کھائی ہے کہ پرفارمنس کے معاملے میں لفظ ” بدترین ” سے ایک درجہ بھی اوپر نہیں جانا۔

الیکشن کے عمل سے لے کر حکومت کی کارکردگی تک کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو جمہوریت کی مکمل تعریف پر پورا اترے۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک وہ جمہوریت کے نام پر ہونے والے فراڈ کے خاتمے کے لیے کوششیں نہیں کریں گے یا محض نعروں کی بجائے کارکردگی کے ذریعے عوام کے دل جیتنے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک ان کی کشتی ایسے ہی ڈانواں ڈول رہے گی۔ تب تک ان کا نظام جمہوریت ایسے ہی کھوکھلا رہے گا کہ کسی ایک وزیر کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہوں گی تو لگے گا کہ عمارت گرنے لگی ہے۔ کالم شروع کرنے سے پہلے منصوبہ تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے بےنقاب کیے جانے والے چند افسروں اور کرپشن کی داستانوں کا ذکر کروں گا لیکن تفصیل پھر کبھی۔ ابھی صرف اتنا پڑھیں سپریم کورٹ میں تحقیقات کے دوران یہ معلوم ہوا ہے کہ پنجاب میں جمہوری حکمرانوں نے 56 کے قریب مختلف کمپنیاں بنائی ہیں۔ جن میں مختلف سرکاری افسر جو سرکار کے ہی ملازم ہیں، وہ بھاری تنخواہوں پر تعینات ہیں۔

ایک ایک افسر 15، 15 لاکھ تنخواہ وصول کر رہا ہے۔ یعنی ایک افسر جس کا گریڈ 18 واں یا 19 واں ہے اور ریاست کا ملازم ہے اور گریڈ کے مطابق اس کیتنخواہ ایک لاکھ اور چند ہزار بنتی ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے اسے کسی کمپنی کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے اور اس کی تنخواہ 15 لاکھ ہو جاتی ہے۔ ریاست اپنے ملازم کو کسی بھی ادارے میں تعینات کرے کیا اس کا فرض نہیں کہ وہ اپنے گریڈ کے مطابق متعین کردہ تنخواہ میں ہی اپنے فرائض سرانجام دے۔ لیکن یہاں تو تنخواہیں لاکھوں میں ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کسی بدنیتی کے بغیر ہوا ہے؟ کیا یہ سب کچھ جمہوریت ہے؟

یا تو ایسا ہو کہ آپ کسی خاص شعبے سے متعلق کمپنی بنائیں اور پھر بیرون ملک سے اس شعبے کا خاص ماہر بلائیں اور اسے بھاری تنخواہ دیں تو پھر بھی بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن ایک عام حاضر سروس سرکاری افسر جو اس شعبے کا کوئی خاص علم نہیں رکھتا اور نا ہی کوئی خاص مہارت۔ اسے 15، 15 لاکھ پر رکھنا۔ افسوس صد افسوس۔ یہ تو بھلا ہو چیف جسٹس صاحب کا کہ انہوں نے حکم دیا کہ تمام کمپنیوں کے سربرہ اضافی تنخواہ واپس کریں۔ احسن اقبال صاحب، اگر یہ حکم جناب نواز شریف دیتے تو کیا جمہوریت زیادہ مضبوط نا ہوتی؟ لیکن کیا کریں کان ترس گئے ہیں آپ جمہوری لوگوں کی طرف سے ایسی خبر سننے کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).