احسن اقبال پر حملہ یا انتخابات کے حوالہ سے کوئی پیغام؟


وزیر داخلہ احسن اقبال پر ان کے اپنے حلقے نارووال میں ایک کارنر میٹنگ کے اختتام پر ہونے والا حملہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ لیکن کیا اس حملہ کے بعد تحقیقات ہونے سے پہلے اور حملہ آور کے بارے میں معلومات سامنے آنے سے قبل قیاس آرائیاں کرنا اور خفیہ ہاتھوں کا سراغ لگانے کی باتیں کرنا کسی حقیقی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے یا یہ باتیں محض سنسنی خیزی پیدا کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اس معاملہ میں ’خفیہ ہاتھوں‘ کی بات کی ہے جبکہ بعض دوسرے لیڈروں نے بھی اس بارے میں اصل عوامل کا پتہ لگانےکی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے ’ حملہ کرنے والا تو ایک ذریعہ ہے۔ جو سیاسی فوائد کے لیے، اپنا بدلہ چکانے کے لیے اُن کی سرپرستی کر رہے ہیں اور انہیں اکساتے ہیں وہ اصل مجرم ہیں‘۔ ملک کے وزیر داخلہ پر حملہ کے بعد حکمران پارٹی کی اہم لیڈر کی طرف سے یہ نشاندہی تشویش کا سبب ہونی چاہئے۔ یہ تشویش صرف اس حد تک محدود نہیں ہو سکتی کہ بعض لوگ ایک خاص ایجنڈا کی تکمیل کے لئے سیاسی لیڈروں پر حملے کروا رہے ہیں بلکہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حملہ کے فوری بعد سیاسی بیانات اور سوشل میڈیا تبصروں میں سازش، خفیہ ہاتھوں اور مفادات کی بات کرکے سیاسی لیڈر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

یہ حملہ اس لحاظ سے بھی نہایت تشویش کا باعث ہے کہ اس میں ملک کے وزیر داخلہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حملہ آور جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بیس بائیس سال کا نوجوان ہے، گرفتار کرلیا گیا اور اس سے ابھی تفتیش اور پوچھ گچھ کی تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ یہ حملہ چونکہ احسن اقبال کے اپنے علاقے میں ایک چھوٹے اجتماع میں کیا گیا ہے جہاں سب ہی سب کو جانتے تھے، اس لئے اس حملہ آور کی نیت اور مقصد کے بارے میں تفصیلات جلد منظر عام پر آجانی چاہئیں۔ خبروں کے مطابق وزیر داخلہ پر حملہ میں ملوث نوجوان اسی علاقے کا رہائشی بھی ہے۔ اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے یہ حرکت کسی ذاتی رنجش یا ناراضگی کی وجہ سے کی ہو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس واقعہ میں سیاسی سازش تلاش کرنا اور اسے انتخابات کے قریب حکمران جماعت کو ہراساں کرنے کی کوشش قرار دینا درست تجزیہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس واقعہ میں خفیہ ہاتھوں کو تلاش کرنے کی باتیں کر کے کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہو نا چاہئے کہ اگر یہ حملہ کسی خاص گروپ یا عناصر نے کروانے کی ’سازش‘ کی ہوتی تو شاید اس مقصد کے لئے کسی مقامی باشندے کو استعمال کرنے کی بجائے حملہ آور باہر سے بھجوایا جاتا۔ اس طرح خفیہ ہاتھوں اور سازش کو واقعی پوشیدہ رکھنے کا مقصد آسانی سے پورا ہو سکتا تھا۔ تاہم یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ پولیس تفتیش کی تفصیلات سامنے آنے سے پہلے اس بارے میں کسی بھی قسم کی قیاس آرائی یا خیالی گھوڑے دوڑانا درست اقدام نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا وجہ ہے سیاسی لیڈر اور خاص طور سے حکمران جماعت کے ذمہ داران اس واقعہ کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ حالانکہ وزیر داخلہ پر حملہ کے بعد عام لوگوں کو یہ سوال کرنا چاہئے کہ جو حکومت خود امن و امان کے ذمہ دار اور نگران وزیر کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے، وہ عام لوگوں کو کیسے احساس تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

تاہم مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد واضح ہے۔ نواز شریف اور ان کے ساتھی ان دنوں کسی بھی موقع کو اپنی مظلومیت کی کہانی سنانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پنجاب کے علاوہ وفاقی حکومت بھی مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے لیکن اس کے باوجود وہ یہ شور مچانے میں سب سے آگے ہے کہ اس کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اور اسے انتخابات میں ہرانے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ اس واویلا کا ایک پہلو تو ان مباحث کی وجہ سے سمجھ میں آسکتا ہے جن میں آئندہ انتخابات میں معلق پارلیمنٹ سامنے لانے کی باتیں کی جارہی ہیں اور یہ اشارے دیئے جارہے ہیں کہ فوج کے لئے نواز شریف کے علاوہ شاید شہباز شریف، عمران خان اور آصف زرداری بھی قابل قبول نہیں ہیں ۔ اس لئے انتخابات تو وقت پر ہوں گے تاکہ آرمی چیف کے جمہوریت پر یقین اور چیف جسٹس کے جمہوری عمل اور آئین کی حفاظت کے وعدوں کو سچا ثابت کیا جاسکے ۔لیکن آزمودہ طریقوں سے کچھ ایسا کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کسی پارٹی کو بھی اکثریت حاصل نہ ہو اور سینیٹ چئیرمین کے انتخاب کی طرز پر کوئی ایسا ’ ڈارک ہارس ‘ برآمد کرلیا جائے جو کہنے کو تو وزیر اعظم ہو لیکن اس کا اصل کردار کٹھ پتلی کا ہو۔

اس بارے میں پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری اور حتیٰ کہ اپنے تئیں وزارت عظمیٰ کے سب سے مضبوط امید وار عمران خان اشارے دے چکے ہیں۔ لیکن یہ دونوں یہ کہنے میں ناکام رہے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر ایسی صورت حال پیدا کی گئی تو ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ آصف زرداری چونکہ اسٹبلشمنٹ سے پینگیں بڑھانے کے عمل میں نو آموز ہیں، اس لئے وہ تو معلق پارلیمنٹ کے بارے میں یقین سے بات کرتے ہوئے اسے پیپلز پارٹی کی سیاسی کامیابی کا اشارہ قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان نے اس حوالے سے اپنا مؤقف واضح نہیں کیا۔ حالانکہ انہیں بھی یہ بتانا چاہئے کہ پانچ برس تک دھاندلی کا شور مچانے کے بعد اگر مسلم لیگ (ن) کو توڑ پھوڑ کر انتخابی معرکہ سے باہر کرنے کا اہتمام کرلیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف بھی قابل ذکر تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو کیا وہ سینیٹ چئیرمین کے انتخاب کے طرز پر نواز شریف دشمنی میں کسی بلیک ہارس کو قبول کرلیں گے یا دھاندلی کا شور مچا کر ایک نئے دھرنے کی تیاری کریں گے۔ اور یہ دھرنا وہ کس کے خلاف دیں گے۔ کیوں کہ یہ صورت حال تو وہی عناصر پیدا کریں گے جنہیں نواز شریف اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ’خلائی مخلوق‘ قرار دے رہے ہیں اور جن سے آصف زرداری اپنی سیاسی محنت کا عوضانہ قبول کرنے کی امید پر راضی بہ رضا ہو چکے ہیں۔ انتخاب میں سامنے آنے والے نمائیندے یا حکومت اگر عوام کے ڈالے گئے ووٹوں کی عکاس نہ ہوئی تو اسے کون سی جمہوریت کہا جائے گا اور اس کے ذریعے ملک کو کس راستے پر چلانے کی کوشش ہوگی۔ ضروری ہو گا کہ تحریک انصاف بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرح اس ممکنہ صورت حال کے بارے میں اپنا سیاسی ایجنڈا واضح کردے۔

یہ بات طے ہونی چاہئے کی جمہوریت کو اس قسم کا لبادہ پہنا کر پیش کرنے کی کسی کوشش کے نتیجہ میں خواہ مسلم لیگ (ن) کو زیر کرلیا جائے یا عمران خان کو وزیر اعظم بننے سے روک لیا جائے لیکن اس سے نہ تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے گی اور نہ ہی دنیا کو یہ دھوکہ دیا جاسکے گا کہ ملک میں آئین کے مطابق انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور حکومت بنانے والا گروہ ہی عوام کا حقیقی نمائیندہ ہے۔ کیوں کہ اگر ایک یا اس سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کے ووٹ بنک میں اضافہ ہو تا ہے لیکن یہ ووٹ انہیں اسی تناسب سے قومی اسمبلی میں نمائندگی دلوانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو سامنے آنے والی پارلیمنٹ پہلے سے بھی زیادہ بے توقیر ہوگی۔ اس سے یہ تو اندازہ ہو جائے گا کہ ملک میں آئین کی بالادستی کے باوجود کون اصل حکمران ہے لیکن یہ اعلان ملک کو مسائل اور اندیشوں کی ایک نئی دلدل میں دھکیلنے کی ایسی گھناؤنی کوشش ہوگی جس کے اثرات ملک کے سیاسی ماحول کے علاوہ معیشت، سلامتی اور خارجہ تعلقات پر مرتب ہوں گے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران سپریم کورٹ کی طرف سے انصاف کی فراہمی کے جس تازہ بتازہ ایجنڈے پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے، اس کا اظہار ملک کی کمزور ہوتی معیشت، حکومت کی بے عملی اور خارجہ سطح پر پاکستان کے اعتبار میں کمی کی صورت میں پہلے ہی سامنے آرہا ہے۔ انتخاب کو اس کارگزاری کے تسلسل کا بہانہ بنانے سے یہ مسائل کم نہیں ہو سکیں گے۔

ان سیاسی اندیشوں سے قطع نظر وزیر داخلہ پر حملہ کا وقوعہ سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔ اگر ملک کے سیاسی لیڈر واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر داخلہ پر حملہ کرکے کسی ایک یا متعدد سیاسی پارٹیوں کو کوئی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے یا کوئی گروہ 2013 کے انتخاب کی طرح اس بار بھی بعض سیاسی پارٹیوں کے لئے مشکلات پیدا کرکے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے تو اس تشویش کو بیان بازی تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ اس پر سیاسی اتفاق رائے سامنے آنا چاہئے ۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لئے سیاسی پارٹیاں یک جہتی کا مظاہرہ کرکے ملک میں جمہوریت کو ایک بڑے نقصان سے بچا سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali