دلہن سے نائیکہ تک


یہ تب کی بات ہے جب کسی ایک دن آس پاس اور دور پرے کے رشتے دار اور شناسائی کے دعویدار چنچل عروس البلاد کے گھر ایک نوخیز ملک کا رشتہ لے کر آئے۔ اس سے پہلے کہ عروس البلاد یا اس کے اہلِ خانہ کو سوچنے سمجھنے کی مہلت ملتی مبارک سلامت کے شور میں چھوارے بٹ گئے ۔

الہڑ عروس البلاد خوش تھی کہ گھر میں نہ صرف کچھ نیا سامان آ گیا بلکہ اتنے سارے دور پرے کے جانے انجانے رشتے دار بھی مل گئے۔ان میں سے کچھ کو عروس البلاد نے ایک آدھ بار کہیں ، کبھی ، کسی کے گھر یا تقریب میں بغور یا سرسری دیکھا ہوگا۔مگر رواداری اور خاندانی تربیت کا تقاضا یہی تھا کہ جو بھی اپنے بارے میں جو کچھ کہہ رہا ہے سر جھکا کے سنتی چلی جائے۔

ارے عروس البلاد کمال ہے ؟ یعنی مجھے ماموں امجد کو نہیں پہچانتی ۔

سندھ کلب – کراچی – 1955

بھئی میں تو عروس البلاد کا خالو چوہدری شفیق جٹ ہوں۔ ہمارے ہاں ہی ہر وقت گڑیا گڑیا کھیلتی رہتی تھی۔ بڑی مشکل سے اپنے گھر جاتی تھی۔

بیٹا عروس میں تیرے ابا کا بزنس پارٹنر رہا ہوں ہدائیت اللہ۔ لو جی ایمان کی بات تو یہ ہے کہ میں نے کبھی عروس اور اپنی اولاد میں فرق نہیں رکھا بلکہ سگی بیٹیوں سے بڑھ کے چاہا۔

ارے بیٹا عروسی ! پہچانا؟ میں تیری پھوپھی زہرہ کی سمدھن نصیبو ۔۔ہائے ہائے اب کہاں پہچانننے لگی یہ شوخ حسینہ ہم غریبوں کو۔ پھر بھی کتنی پیاری لگ رہی ہے ماشااللہ ۔۔۔۔

اور پھر انہی اجنبی و شناسا رشتے داروں ، رشتے دارنیوں اور سر پے ہاتھ رکھ کے کولہے تک کھسکانے والے بڈھے ٹھرکیوں اور ان کے منشیوں، اور ان کے گماشتوں نے عروس البلاد سے سادے کاغذوں پر سبز باغ دکھوا دکھوا کے انگھوٹا لگوانا شروع کر دیا۔ پہلے گھر گیا، پھر سامان گیا، پھر ماں سے بھی زیادہ چاہنے والی پھاپھا کٹنیاں اور کٹنے کٹنے لگے۔

چنانچہ طوطا چشمی و لگڑ بگی ہوس کی ڈسی عروس البلاد چند ہی برسوں میں وہ عورت ہوگئی جس کے بارے میں بعضے بعضے رکشے اور ٹرک کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ’وقت نے پھر دلہن بنا دیا‘ ۔اور پھر وقت کے ہاتھوں یہ دلہن سیانی ہوتی چلی گئی اور جینے کے لیے داشتہ پن سیکھ لیا۔ جو زیادہ بولی لگائے وہ ایک معینہ عرصے کے لیے اپنے کنے رکھ لے ۔

عزت ، شہرت ، دولت ، تعلقات اور طاقت ۔جب سب آجائے تو پھر داشتہ ہی بنے رہنا خسارے کا سودا لگتا ہے۔ لہذا عروس البلاد نے ایک روز داشتائیت کو خیر باد کہا اور نائکیت کی سرحد میں داخل ہو گئی۔

اس نے دیکھا کہ نائکہ سے ہر کوئی محتاط بھی رہتا ہے مگر نائکہ کے التفات سے بھی ہاتھ دھونا نہیں چاہتا۔ نائکہ کے پاس ہی تو اس حسین و جوان خزانے کی چابی ہے جسے ہر کوئی لوٹنا چاہتا ہے۔ یہ خزانہ ہی تو وہ وزیٹنگ کارڈ ہے جس کے ذریعے نائکہ کے لیے ہر دروازہ کھل جا سم سم ہوجاتا ہے۔ کیسا بھی بارعب مذہبی، غیر مذہبی، مقامی، غیر مقامی، شیروانی بردار بدمعاش، تھری پیس لفنگا یا واسکٹ زدہ کمینہ ہو۔ کون ہے جسے نائکہ کی ضرورت نہ ہو اور جس کی ضرورت نائکہ کو نہ پڑے۔

عروس البلاد کو جانے آخری بار خود کو آئینے میں دیکھنا کب نصیب ہوا ہوگا۔ آئینہ دیکھنے کے لیے بھی تو فرصت چاہیے۔ عروس البلاد کو جیو اور جینے دو کی جنگ سے فرصت ملے تو خود کو خود سے دیکھے۔ ویسے بھی دل سے ثبات و بے ثباتی کا کھٹکا نکل جائے تو پھر خود کو دیکھنا، نہ دیکھنا کیا؟

(15 مار چ 2015ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).