ملا گردی، احسن اقبال پہ حملہ اور ہماری زباں بندی


دوست یار کہتے ہیں کہ اب پاکستان آ گئی ہو تو ذرا سوچ سمجھ کر بولا کرو۔ زبان کی یا تو ہلکی سی ٹرمنگ کر لو یا اور کچھ نہیں تو ایک لال رنگ کی لگام ہی لگا لو۔ یہاں ایسے نہیں ہوتا جیسی تم ہو۔ انسان بنو سعدیہ نہ بنو۔ ہم بھی کوئی ایسے سود فراموش نہیں لہذا کبھی کبھی خود کو پشت پر ہلکی سی تھپکی دے کر سمجھاتے بھی ہیں کہ مرشد ہن او گلاں نئیں رئیاں۔ لیکن وہ کیا ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ بس اسی کے مصداق ہمارے لئے سعدیہ کی بجائے انسان بننا ایک کٹھن کشٹ ہے۔ کشمکش ہی ہے صبح شام۔

یہ کل وزیر داخلہ احسن اقبال صاحب کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے اس پر ہم بہت کچھ بولنا چاہتے ہیں اور بے تکان بولنا چاہتے ہیں۔ دماغ بار بار سمجھاتا ہے کہ ایسی کوئی بے وقوفی نہ کر بیٹھنا۔ اگر کسی ایمان کے فرزانے نے لبیک کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ملک کے وزیر داخلہ تک کو نہ بخشا تو تم کس کھیت کی مولی ہو بی بی  تمہیں تو گھر والے منہ نہیں لگاتے۔ گولی لگ گئی تو کسی اور نے کیا پوچھنا ہے، کجا ہسپتال لے جانا۔ ہمارے تو دوست بھی ایسے نہیں کہ ہمارے ایمان کی دلیلیں دیتے پھریں۔ خس کم جہاں پاک ٹائپ سین بن جانا ہے۔

وہ تو احسن اقبال صاحب ہی سخت جان تھے جو بچ نکلے۔ ورنہ نعرہ لبیک کے والیم میں تو کوئی کسر نہ تھی۔ یوں تو سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ بجائے ‘ذمے واروں’ کو کچھ کہنے سننے کے سب اپنے اور احسن اقبال صاحب کے ایمان کی گواہیاں دیتے پھر رہے ہیں کہ کل کو کوئی نعرہ ’حق‘ بلند کرتے ہوئے ان کا  بھی قلع قمع نہ کر دے۔ صفائیاں دے رہے ہیں کہ بڑے پکے مسلمان ہیں۔ حملہ تو صرف غیر مسلموں ہر جائز ہے بھیا۔ آئندہ ایسا مت کیجئے گا، غلطی سے مشٹیک ہوگیا، پلیز۔

ویسے شاید سب کے چپ سادھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کون سی کوئی نئی بات ہے۔ کوئی نئی آگ لگے تو بجھانےکی کوشش بھی کریں۔ اس بات سے کون ناواقف ہے کہ جہاں کسی نے تین کو تیرہ کہا وہ جہنم کی رسید ایمان والوں سے پکڑتا جائے۔ خیر ہم کچھ نہیں کہتے۔ جان بھی پیاری ہے اور عزت بھی۔ کل کو ہمارے ساتھ کچھ ہو گیا تو آپ بھی چپ سادھ لیجئے گا کہ یہاں یہی دستور لازم و ملزوم ٹھہرا۔ بات کرنے پر زبان کٹتی ہے لہذا جان بھی بچائیے اور اس لال لگام والی زبان کو بھی۔

زبان بندی زندہ باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).