قوم کی رہنمائی کرنے والے دیدہ ور اور جید دانشور


وقت آگیا ہے کہ مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹر یہ حقیقت تسلیم کرلیں کہ ہمارے ذہن برسرِزمین نظرآتی وقتی ہلچل کے جلووں میں محو ہوجاتے ہیں۔ سیاست کے کھیل میں جو بھی ہورہا ہوتا ہے وہ درحقیقت عالمی اور مقامی اشرافیہ کے سرکردہ افراد کے مفادات کا ٹکرائو ہوتا ہے۔ ہمیں ان مفادات کی مگر خبر ہی نہیں۔ ان مفادات کے حصول کیلئے جب کوئی سیاست دان گمراہ کن نعرے لگاتا میدان میں اترتا ہے تو ہم اس کی آنیوں اور جانیوں کو ڈرامائی بناکر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ڈرامائی واقعات کو تحریک دینے والے مفادات کا ذکر ہی نہیں کرتے۔

ربّ کریم مگر مملکتِ خداداد پر بہت مہربان بھی ہے۔ جب بھی اس کی بقاء کو خطرات لاحق ہوئے تو غوروفکر کی مجسم علامت بنا کوئی پاسبانِ عقل نمودار ہوگیا۔ اس کے وجدان کے سبب ہم گمراہ ہونے سے بچ گئے۔

قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے سالوں میںسعادت حسن منٹو جیسے کچھ لکھاری تھے جنہوں نے ادب کے نام پر فحاشی پھیلانے کی کوشش کی۔ فیض احمد فیض نام کا ایک شاعر بھی تھا جس نے 14اگست 1947 کی تاریخی صبح کو ’’شب گزیدہ‘‘پکار کر داغدار دکھانے کی کوشش کی۔ ہمیں راہِ راست پر لکھنے کو مگر حکومت پنجاب کی ’’پریس برانچ‘‘ تھی۔ اس کے ایک دیدہ ورافسر چودھری محمد حسن نے منٹو کو ضمانتیں کروانے پر مجبور کردیا۔ وہ دیوار سے لگا تو صوفی قدرت اللہ شہاب نے منٹو کو حسن عسکری جیسے محب وطن دانشوروں سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ اس کی غربت کو برف خانے کی الاٹمنٹ کے ذریعے دور کرنا چاہا۔ نشے کی لت میں مبتلا ہوا منٹو مگر اپنی دین ودنیا سنوار نہیں پایا۔ خون تھوکتا اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

فیض احمد فیض پر قابو پانے کے لئے البتہ ہمیں پنڈی سازش کیس کا انتظار کرنا پڑا۔ وہ جس اخبار کے ذریعے اس ملک کی فکری اساس کو زک پہنچارہا تھا اس پر سرکاری قبضہ کرنے میں کچھ دیر لگی۔ بالآخر یہ قبضہ ہوگیا تو قدرت اللہ شہاب نے الطاف گوہر کے ساتھ مل کر New Leafکے نام سے ایک اداریہ لکھا اور قوم گمراہ ہونے سے محفوظ ہوگئی۔

ان دنوں بھی وطنِ عزیز پر ایک فکری جنگ مسلط ہے۔ مجھ ایسے سطحی ذہن والے صحافیوں کو مگر اس جنگ کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طورپر شاید ہم اس جنگ میں دشمن کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ آزادی صحافت کے نام پر واہی تباہی پھیلائے چلے جارہے ہیں۔

عصرِ حاضر کی 5th Generation Warکے تقاضوں کو مگر ایک دانشور خوب سمجھتے ہیں۔ قبلہ زید زمان حامد ان کا اسمِ گرامی ہے۔ میں ان کی تڑپ ایمانی اور ذہن کی زرخیزی کو سمجھ نہیں پایا تھا۔’’لال ٹوپی والا‘‘ کہتے ہوئے نظرانداز کرتا رہا۔ کئی بار ان کا تمسخر اُڑانے کا مرتکب بھی ہوا۔ سب کچھ لٹاکے اب سمجھ آرہی ہے کہ اس ملک میں Hybrid Warکے تقاضوں کو صرف وہی سمجھتے ہیں۔ خدا مجھے ان کی فکر سے رہ نمائی حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔

نواز شریف کو’’دریافت‘‘ کرنے میں بھی مجھے بہت دشواری رہی۔برسرِزمین موجود حقائق تک محدود ہوا میرا ذہن فقط یہ سمجھتا رہا کہ پانامہ دستاویزات کے ذریعے اپریل 2016کے آغاز میں چند انکشافات ہوئے تھے۔ ان کی روشنی میں پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کو چند سوالات کے جوابات فراہم کرنا تھے۔ نظربظاہر وہ یہ جوابات فراہم نہ کرپائے۔ اقامہ کی بنیاد پر وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوئے۔ اب احتساب عدالت کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔آئینی طورپر اب وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہونے کے اہل نہیں رہے۔ان کی نااہلی تاحیات ہے۔ اس سے مفر کی کوئی صورت کم از کم مجھے تو نظر نہیں آرہی۔

شکنجے میں جکڑے نواز شریف کا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ لہذا صرف آہ وبکا ہے۔ چند ہفتوں بعد وہ جیل بھیج دئیے گئے تو اس آہ وبکا کی سامع فقط دیواریں ہوں گی۔ جیل میں جائے بغیر بھی آزادیٔ اظہار کے موجودہ موسم بہار میں وہ جب کسی ٹی وی سکرین پرنمودار ہوتے ہیں تو ان کی آواز اکثرMuteکرنا پڑتی ہے۔ آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے وطنِ عزیز میں PEMRAنام کا ایک ادارہ موجود ہے۔ اس کا چیئرمین ابھی تک تعینات نہیں ہوا۔تلاش جاری ہے ۔ادارہ مگر کام کررہا ہے اور نواز شریف کی آواز کو آئین کی طے شدہ حدود میں مقید رکھتا ہے۔

نواز شریف جیل چلے گئے تو Liveکیمروں کے ذریعے اپنی صورت دکھانے کی سہولت سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ وہ سکرینوں پر نظر نہ آئے تو لوگ انہیں بھول جائیں گے۔ ان کے نام سے منسوب جماعت میں موجودElectablesاپنی جان بچانے کی فکر میں مبتلا ہوجائیں گے۔ عمران خان صاحب کی تحریک انصاف میں انہیں جگہ نہ ملی تو چودھری نثار علی خان کی فراست کی پناہ میں چلے جائیں گے۔ قصہ تمام ہوجائے گا۔لہذا فکر ناٹ۔

ہمارے مگر ایک جید دانشور ہیں۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ ان کا نام ہے۔ بہت پڑھے لکھے سنجیدہ مزاج شخص ہیں۔ اپنے ٹی وی پروگرام کے ذریعے سٹاراینکرز کی طرح کھوکھلے شوروغوغا سے رونق لگانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان کا شو نوٹنکی نہیں۔آکسفورڈ یا ہارورڈجیسی کسی یونیورسٹی میں دیا لیکچر محسوس ہوتا ہے۔
میں گورنمٹ کالج لاہور میں بھی لیکن اپنے فلسفے کی استاد کی کلاس میں جانے کے بجائے شعبہ نفسیات کی طالبات سے گفتگو کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا تھا۔ ہمارے پروفیسربعدازاں میری بیوی کے خالو بھی ہوئے۔ میرا نکاح ہوجانے کے بعد بھانجی کو شفقت دینے آئے تو اس کے سامنے میرے زمانہ طالب علمی کے پول کھول کر مجھے شرمندہ کردیا۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ میں علم کی دولت سے ازلی طورپر محروم ہوں۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ صاحب کو اسی لئے ٹی وی پر سن ہی نہیں پاتا۔

اتوار کی صبح اُٹھ کر اپنے فون پر ٹویٹ اکائونٹ کو تھوڑی دیر کے لئے Activateکیا تو خبر ملی کہ اپنے کسی پروگرام میں ڈاکٹر صاحب نے انکشاف کیا ہے کہ راولپنڈی کو لاہور سے ملانے والی جی ٹی روڈ کے دائیں بائیں جہل کی بستیاں ہیں۔ان بستیوں کے چند لوگ نواز شریف کا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘والا راگ بہت اشتیاق سے سنتے ہیں۔

علم کی دولت سے محروم جی ٹی روڈ کے دائیں بائیں موجود بستیوں کے مکینوں کو مگر خبر ہی نہیں کہ نواز شریف ’’انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا آلہ کار ہے۔ اس اسٹیبلشمنٹ نے وطنِ عزیز کی تباہی کے منصوبے بنارکھے ہیں۔ہمیں ان منصوبوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ نواز شریف کے جلسوں سے دور رہنا ہوگا۔
ٹویٹرکے ذریعے ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ فرمودات کی خبر ملی تو دل کو بہت تسلی ہوئی۔ربّ کا لاکھ لاکھ شکر کہ میں نواز شریف کے کسی ایک جلسے میں بھی محض صحافی سے مخصوص ٹھرک کی وجہ سے بھی نہیں گیا۔

اپنی نااہلی کے فیصلے کے بعد وہ مری چلے گئے تھے۔ وہاں سے اسلام آباد تشریف لائے تو صحافیوں کے مختلف گروہوں سے طویل ملاقاتیں بھی کیں۔ مجھے بھی ایک بار ایسی ملاقات کے لئے بلایا گیا تھا۔ سستی کے مارے جا نہیں پایا۔کھانا صرف گھر میں کھانے کی عادت ہے اور دوپہر کے کھانے کے بعد کم از کم ایک گھنٹہ سو نہ پائوں تو بائولا ہوجاتا ہوں۔ نواز شریف جو بھی کہتے ہیں اسے سرسری طورپر اخباروں میں ضرور دیکھ لیتا ہوں۔ ٹی وی پر نگاہ پڑجائے اور نواز شریف کی آواز میوٹ نہ ہو تو ان کی چند باتیں بھی سن لیتا ہوں۔

تعلق میرا البتہ لاہور سے ہے۔ خبر نہیں کہ یہ میری بدقسمتی تھی یا خوش قسمتی مگر میرے ماں اور باپ بھی لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ تاحیات اسی شہر میں مقیم رہے۔ لاہور میں پیدا ہوکر اس شہر میں بڑھنے پھولنے کے علاوہ میرے پاس کوئیChoiceہی نہیں تھی۔

1975سے اسلام آباد میں رزق کی مجبوریوں کی وجہ سے مقیم ہوں۔ موٹروے سے قبل سفر دوشہروں کے مابین جی ٹی روڈ کے ذریعے ہی کرتا تھا۔ میرا نفسیاتیProfileبنایا جائے تو ثقافتی اور فکری اعتبار سے مجھے اس بریکٹ میں ڈالا جائے گا جو لاہور اور راولپنڈی اور ان دوشہروں کو ملانے والی جی ٹی روڈ کے دائیں بائیں آبادبستیوں پہ حاوی سوچ کی نمائندہ ہے۔

شایداس ’’جاہلانہ‘‘ سوچ ہی کی وجہ سے میں نواز شریف کی موجودہ مشکلات کو فقط پانامہ دستاویزات میں ہوئے انکشافات کے تناظر ہی میں رکھ کر دیکھتا رہا۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے اس سارے قصے کو مقامی اور عالمی اشرافیہ کے مابین ٹکرائو کے اظہار کی ایک صورت دیکھنے والی آنکھ بخشی۔ میں اس آنکھ کو اب شدت سے استعمال کروں گا تاکہ جہل کی بستیوں سے محض آبائی اور پیدائشی وجوہات کی بناء پر وابستہ ہونے کے باوجود بھی میں وجدان کی دولت سے اپنے ذہن کو مالا مال کرپائوں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).