شازیہ چھینہ کے چند سوالات کا جواب


گزشتہ دنوں ہم سب پر ایک بلاگ ”پنجاب اور پنجابی کے خلاف نفرتوں کو ہوا دینے کی مہم“ پڑھا، بلاگ میں ایک خاتون لکھاری نے چھوٹی قومیتوں سے گلہ کیا تھا کہ وہ بلاوجہ پنجاب پر تنقید کرتی ہیں حالانکہ پنجاب نے ملک کے لئے چھوٹے صوبوں سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، ملک کی ترقی کا بڑا حصہ پنجاب کا ہے، پہلے تو نظرانداز کیا۔ پھرسوچا کہ جواب نہ دیا جائے تو یہ بھی ناانصافی ہوگی، لہذا ان کے چند سوالات کا جواب دے رہا ہوں

لکھاری شازیہ چھینہ کہتی ہیں کہ  “پنجاب اور پنجابی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت احساس عدم تحفظ اور تنہائی کا شکار کیا جا رہا ہے”

جب ملک کے تمام اہم عہدوں پر براجمان اکثر لوگوں کا تعلق پنجاب سے ہو تو پنجاب سننے کا حوصلہ بھی پیدا کرے۔

شازیہ چھینہ کے خیال میں پنجاب وہ مظلوم ہے جو اس ملک کی پیداوار میں سب سے بڑا حصہ ڈالتا ہے اور پھر بدلے میں بلوچ سے اس کی گیس، پٹھان سے اس کی بجلی، اور سندھی سے تو مفت میں طعنے کھاتا ہے۔

موصوفہ کے سوال کے جواب میں یہ کہوں گا کہ اگر پشتون کی بجلی اور بلوچ کی گیس نہ ہوتی تو پنجاب پیداوار میں بڑا حصہ ڈالنے کے قابل ہی نہ ہوتا۔ ملک میں جب بھی گندم یا چینی کی قلت آئی ہو تو پنجاب چھوٹے صوبوں کو یہ دونوں چیزیں دینا بند کردیتا ہے لیکن بلوچستان کے 29 اضلاع میں گیس نہ ہونے کے باوجود پنجاب کو ایک دن بھی گیس کی سپلائی بند نہیں ہوئی ہے۔

شازیہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ یہ پنجاب کا ہی حوصلہ ہے کہ یہ بلاوجہ کی نفرت وہ برسوں سے سہ رہا ہے اور اس پر اپنے بیٹوں کی لاشیں بھی وصول کرتا ہے۔ کوئی مجھے بتائے کہ آج تک پنجاب نے بھی ایسی کوئی لاش بھیجی ہے؟

ہم جواب میں یہ کہتے ہیں کہ اگر پنجاب لاشیں وصول کرتا ہے تو پنجاب سے لاشیں جاتی بھی ہیں، پنجاب سے ژوب کے طالبعلم کی لاش گئی، گزشتہ ماہ پنجاب سے ہی پشتون طابعلم کی لاش خیبر پختونخوا گئی، وہ الگ بات ہے کہ پنجاب سے جانے والی لاشوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور نہ ہی میڈیا اس کو کوریج دے کر اپنا ٹائم ضائع کرتا ہے۔

بلوچستان سے بڑی تعداد میں پنجاب لاشیں گئیں جس کا افسوس ایک پنجابی کی طرح ہر پاکستانی کو ہے، اس مسئلے سے بلوچستان بھی بڑی حد تک متاثر ہوا، یہاں کا کاروبار متاثر ہوا، کوئٹہ شہر کی مارکیٹیں جو پنجاب اور دیگر صوبوں سے آنے والے سیاحوں کی وجہ سے آباد تھیں، وہاں ایک دہائی سے ویرانی چھائی ہوئی ہے۔

موصوفہ کو صرف پنجاب کا درد ہے، انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کراچی کے حالات خراب ہونے کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں پشتون قتل کر دیے گئے، ایک سیاسی جماعت کے ایم پی اے کے قتل کے بعد ایک ہی دن میں سو سے زائد پشتون قتل ہوئے، لاشیں اگر پنجاب سے گئیں، اسی طر ح سینکڑوں کی تعداد میں لاشیں کراچی سے بلوچستان آئی بھی ہیں۔

موصوفہ اپنے بلاگ میں ایک جگہ کہتی ہیں کہ حالیہ ہونے والی مردم شماری میں پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جس کے آبادی بڑھنے پر اس کی قومی اسمبلی میں سیٹیں بڑھانے کے بجائے کم کر دی گئی ہیں اور یہ 9 سیٹیں پنجاب سے چھین کے بلوچستان کے پی اور وفاق کو دے دی گئی یعنی پنجاب میں ماﺅں نے بچے جننے بند کر دیے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کو کم آبادی پر نشستیں نہیں ملیں بلکہ پورے ملک میں آبادی کے تناسب پر نشستیں بنائی گئیں جس کی بنا پر پنجاب کی نشستیں کم ہوئیں، اس سے قبل تو کم آبادی کے باوجود پنجاب زیادہ نشستوں پر قبضہ کر کے بیٹھا تھا، وہ تو اچھا ہے مردم شماری ہوئی جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کو اپنا حق ملا۔

شازیہ چھینہ کہتی ہیں کہ یہ پنجاب ہی ہے کہ جہاں جماعت اسلامی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جیسی پارٹیاں اچھا خاصا ووٹ لیتی ہیں اور حکومتیں بھی بناتی ہیں اور پنجاب کو گالی بھی دیتی ہیں ۔  ہم موصوفہ کو یاد دلاتے ہیں کہ تحریک انصاف نے سب سے زیادہ ووٹ پشتونوں کے لئے لیکن انہوں نے پشتونوں کے حقوق کے لئے ایک دن احتجاج نہیں کیا لیکن پنجاب کی چار نشستوں کے لئے 126دنوں تک دھرنا دیا۔ پشتونوں سے سی پیک چھین لیا گیا، مغربی روٹ نظرانداز کر کے پشتونوں کا معاشی قتل عام ہوا لیکن تحریک انصاف نے مسئلے پر ایک بات نہیں کی۔ پنجاب کی جماعتوں کو چھوٹے صوبوں کے وسائل سے مطلب ہوتا ہے، وہاں کے عوام سے نہیں۔

بلاگ میں لاعلمی کی انتہا اس وقت ہوئی جب موصوفہ نے کہا کہ کوئی پنجابی پارٹی دوسرے صوبے سے صرف ووٹ لے کے دکھا دے۔ ان کو شاید یہ پتہ نہیں کہ پنجاب کی پارٹی مسلم لیگ ن ہو یا پھر ق لیگ، دونوں نے بلوچستان پر دو یا دو سے زائد بار حکومتیں کی ہیں، ن لیگ کے نواب ثناءاللہ زہری کو ہٹا کر ق لیگ کے میرعبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنائے گئے، اس سے قبل بھی دونوں جماعتوں کے وزرائے اعلیٰ آئے ہیں، تو پھر آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ یہاں کوئی پنجابی پارٹی کو ووٹ نہیں دیتا۔ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی پہلی نشست پر کئی دہائیوں سے پنجابی سیاستدان منتخب ہوتا آیا ہے۔ یہاں پنجابی سیاستدان ووٹ بھی پنجابی کے نام پر لیتا ہے۔ بلوچستان کا موجودہ وزیرتعلیم بھی ایک پنجابی ہی ہے۔

اب کوئی یہ بتائے کہ پنجاب کے دو اضلاع جو پشتونوں کے ہیں وہاں پشتون کے نام پر کتنے پشتون سیاستدانوں کو ووٹ ملے ہیں، یا پھر بلوچ اضلاع راجن پور اورڈیرہ غازی خان میں کتنے بلوچ سیاستدان بلوچ کے نام پر ووٹ جیت کے کامیاب ہوئے ہیں، دونوں علاقوں سے منتخب ہونے والے نمائندے اپنی قوم نہیں، پنجاب کی سیاست کرتے ہیں۔

بلوچستان کے تمام اہم عہدوں پر ہمارے پنجابی بھائی براجمان ہیں لیکن آپکے صوبے میں پشتون مزدور بھی محفوظ نہیں۔ پندرہ سالہ بچوں کو صرف اس بنا پر تھانے لے جاتے ہوں کہ انکے پاس شناختی کارڈ نہیں حالانکہ شناختی کارڈ 18سال سے کم عمر بچوں کو جاری نہیں ہوتا۔ ہمارے طلباء کے اتن(رقص) سے آپ کو خطرہ ہوتا ہے۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلبا کو اس بنا پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنا پشتون کلچر اوربلوچ کلچر ڈے کیوں مناتے ہیں۔ طلبا کو بغیر کسی جرم کے جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ پنجاب میں پشتونوں پر کاروبار کے دروازے بند کئے گئے، تعلیمی اداروں میں کوئی پروگرام ہو یا پھر ریلوے اسٹیشن میں دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے کوئی مشق ہو تو پشتون کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتے ہوں، ان سب کے باوجود جب پشتون گلہ کرتے ہیں تو تعصب پسند، نفرت پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے کر ان کا منہ بند کر دیا جاتا ہے۔

پشتونوں، بلوچوں اور سندھیوں کو پنجابی بھائیوں سے کوئی دشمنی نہیں، صرف اس بات پر گلہ کرتے ہیں کہ ہم سے محبت نہیں کرسکتے تو خدارا نفرت بھی نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).