گیری نے جھوٹ کیوں بولا؟


گیری دنیا کی سپر پاور کہلا ۓ جانے والے ملک، دنیا کی مہنگی ترین فلم انڈسٹری ہالی وڈ کی اسٹیٹ کے ایک پوش علاقے، دنیا کی ترقّی یافتہ اور مہذب سمجھی جانے والی قوم کے بیچ، ایک غیر معروف موٹل کےاس کمرے میں لاچارگی، مجبوری اور بے بسی کی تصویر بنے لیٹا تھا کہ جس کا کرایہ ختم ہوۓ تین گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا تھا۔ میں نے اس کے کپڑوں میں سے ایک خشک پاجامہ نکال کے بڑی مشکل سے پہنایا کہ اپنی ہمّت کا اسے ساتھ نہیں تھا۔ اتنے میں میڈیکل ایمرجنسی کا سٹاف کمرے میں داخل ہوا۔ گیری اپنے ہوش و حواس میں تھا۔ تین لوگوں کی ٹیم میں سے دو ضروری بنیادی ٹیسٹ کرنے کی مشین سیٹ کرنے لگے اور ایک نے گیری کی دماغی حالت جانچنے کے لۓ کچھ سوال کرنا شروع کئے۔ اس کا نام، آج کی تاریخ اور سال۔ اسے تاریخ یاد نہیں تھی مگر سال یاد تھا۔ مجھے بھی یہ اندازہ لگانے میں کوئی دقّت نہ ہوئی کہ اس کا دماغ ٹھیک کام کر رہا ہے۔ گیری کے وائٹلز سب ٹھیک تھے۔ سٹاف کے پوچھنے پہ گیری نے بتایا کہ اس کے بائیں ہاتھ میں ایک بار پہلے بھی سٹروک ہو چکا ہے۔ تب مجھے علم ہو کہ گیری اس دن سیڑھیاں چڑھتے دوسرا ہاتھ استعمال کیوں نہیں کر رہا تھا۔ گیری بتا رہا تھا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ٹیومر تھا۔ اسے ہائی بلڈ پریشر بھی ہے اور اور شوگر کنٹرول کے لئے اسے انسولین لینی پڑتی ہے۔ آخری بار انسولین کب لی تھی۔ میڈیکل اٹینڈینٹ نے گیری سے پوچھا تو اس نے کہا کہ تین دن سے میں نے انسولین نہیں لی کیوں کہ میرے پاس سوئیاں نہیں ہیں۔ شاید یہی سوئیاں تھیں جن کو لینے کے لئے اس کی بیٹی اسے دو میل پیدل چل کے فارمیسی جانے کا مشورہ دے رہی تھی۔ سٹروک کی کوئی علامت نہیں تھی اور اتنا تو گیری کے ساتھ کچھ دیر رکنے میں مجھے بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ سٹروک نہیں تھا۔ بائیں کان کے پاس خون کے نشان تھے۔ میں نے سٹاف کو بتایا کہ میں نے یہ صبح بھی دیکھے تھے۔ گیری نے تفصیل بتائی کہ آج ہی صبح وہ واش روم میں گرا ہے اور اس کا سر ٹوائلٹ سیٹ سے ٹکرایا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ سب شوگر کی زیادتی کی وجہ سے ہوا ہے۔ کیوں کہ تین دن سے گیری نے انسولین نہیں لی تھی۔ آخر فیصلہ کیا گیا کہ اسے ہاسپیٹل لے جایا جائے۔ اس کی دوائیاں، فون، کچھ نقدی، آئی پیڈ سب اکٹھا کر ایک پلاسٹک بیگ میں ڈالا گیا اور گیری کو اٹھا کے ایمبولینس تک لایا گیا۔ جو اسے لے کے ہسپتال روانہ ہو گئی۔

میں نے ضروری سمجھا جیمی کو اطلاع کر دینی چا ہئے۔ اس کا فون تھوڑی دیر پہلے بند تھا مگر اب ملایا تو بیل جا رہی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ گیری کو لگا کہ اسے سٹروک ہوا ہے تو ہم نے ایمبولنس کال کی تھی۔ میرا چونکہ تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جس کے بارے میں مجھے انگلینڈ میں ایک بار ایک گورے نے کہا تھا کہ پاکستانی قوم بہت جذباتی پاگل ہے۔ دوسرے محلّے کی تکلیف کو اپنے گھر کا مسئلہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور بلا وجہ پریشان ہوتے ہیں ۔ جب کہ ہمارے ساتھ والے گھر میں کچھ ہو جائے ہم کبھی اتنا سنجیدہ نہیں لیتے۔ تو ایسی قوم سے تعلق کے پیش نظر میں جیمی سے انتہائی جذباتی ردّعمل کی توقّع کر رہا تھا۔ کیوں کہ یہاں بات کسی دوسرے کے باپ کی نہیں بلکہ اس کے اپنے سگے باپ کی تھی۔ مگر مجھے تب انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب جیمی نے جواب میں انتائی سرد اور سپاٹ قسم کے لہجے میں صرف اتنا پوچھا ’’ کیا وہ اسے ہسپتال لے جائیں گے‘‘ ۔ مجھے لگا وہ صرف یہی سننا چاہ رہی تھی یا اس کی خواہش تھی کہ اسے ہسپتال لے جائیں۔ میں نے اپنے تئیں تمام تفصیل بتا کے فون بند کر دیا۔ مجھے جیمی کے ردّعمل سے انتہائی رنج ہوا تھا۔ میں غیر تھا۔ جتنا دکھ گیری کو اس حال میں دیکھ کے مجھے ہوا اس کی اپنی بیٹی اس درجہ تکلیف کی ایکٹنگ بھی نہ کر پائی تھی۔ مجھے پورا یقین تھا اگر میں اسے گیری کے مر جانے کی خبر بھی دیتا تو میرے سامنے نہ سہی مگر فون رکھنے کی بعد وہ یہ ضرور کہتی ’’تھینک گاڈ، ہی از نو مور‘‘۔

ہم ان معاشروں کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں۔ کوئی شک نہیں۔ ان کے ہاں رائج نظام ہم سے صدیوں آگے ہے۔ چاند کی مٹی پہ اپنے قدموں کے نشاں چھوڑ کے آنے والی یہ قوم ہماری جیسی قوموں سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں کہ جن کے لوگ چاند تو دور کی بات وقت پہ ہسپتال تک نہیں پہنچ پاتے اور رستے میں ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مگر اس سب ترقی اور مادہ پرستی کی دوڑ جو قیمت ان لوگوں نے چکائی ہے کاش اس قدر خمیازہ ہمیں نہ بھگتنا پڑے اور وہ قیمت ہے رشتوں کی۔ اولاد ماں باپ کی نہیں، بھائی بہن اور بہنوں کو بھائیوں کی فکر نہیں۔ زندگی اپنے نفس تک محدود ہے اور اسی کی پرواہ میں شام سے دن اور دنوں سے شام کی گنتی میں گزرتی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں تو ایسے مریض کو ایک پل تنہا نہیں چھوڑا جاتا مگر یہ کیسا خون تھا، یہ کیسی بیٹی تھی جس نے موت کے دن گنتے ہوئے باپ کو ایک موٹل کے کمرے میں لا کے چھوڑ دیا تھا۔ میں ایک ایک واقعہ پہ غور کرنے لگا۔ گیری کو سٹروک تھا ہی نہیں۔ سٹروک کی علامات کی اسے اچھی طرح خبر تھی کیوں کہ اسے پہلے بھی ایک بار ہو چکا تھا۔ اس نے سٹروک کا جھوٹ بولا تھا۔ مگر گیری کو جھوٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ گیری تو جانتا تھا مگر اب مجھے بھی اس سوال کا جواب سمجھ آ رہا تھا۔ گیری کی دو ضروریات تھیں ۔ ایک رہنے کے لئے چھت اور دوسرا خیال رکھنے کے لئے کوئی وجود۔ دونوں ضروریات یا تو بیٹی پورا کر سکتی تھی یا پھر ہسپتال ۔ گیری کو سٹروک کا جھوٹ اس لئے بولنا پڑا کیوں کہ اسے یقین تھا کہ جو بھی ہو بیٹی کبھی نہیں آئے گی اور جو بھی ہو ایمبولینس تو آہی جاۓ گی۔

 گیری کا باقی سامان ہمارے موٹل کے لانڈری روم میں پچھلے دو ہفتے سے ابھی تک کسی ایسے کا منتظر ہے جو صرف یہ کہ کے لے جائے “یہ میرے باپ کا ہے”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3