وزیراعظم ہمت دکھائیں اور سچ بیان کر دیں


چند باتیں اور موضوعات اس کالم میں دہراتے ہوئے اُکتا گیا ہوں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ کو اس کے آبائی ضلع کے ایک گاﺅں میں لیکن اسی ضلع کا ایک نوجوان پستول کی گولی کے ذریعے اس دُنیا سے رخصت کرنے کی کوشش کرے تو ہذیان محسوس ہوتی تکرار ضروری ہوجاتی ہے۔ میری اور آپ کی حفاظت کو یقینی بنانے والے ریاستی نظام کا حتمی نگہبان بذاتِ خود غیر محفوظ نظر آئے تو مایوسی پھیلتی ہے۔ اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ ہیجان وخلفشار کے بہت تیزی سے پھیلنے کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اصل دُکھ مگر اس حقیقت کے بارے میں ہے کہ احسن اقبال پر حملہ ”اچانک“ نہیں ہوا۔

نواز شریف اور ان کا خاندان لاہور کی جامعہ نعیمیہ سے کئی دہائیوں سے وابستہ رہے ہیں۔ اس جامعہ کے ایک اجتماع میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے نواز شریف پر جوتا اچھالا گیا۔ خواجہ آصف کے چہرے پر ان کے آبائی شہر میں سیاہی پھینکی گئی۔ اقامہ کی بنیاد پر وہ بھی نااہل ہوئے۔ احسن اقبال کو بھی ”اقامہ“ ہی کے الزام میں تاحیات نااہل کروانے کے منصوبے بنائے جارہے تھے۔ اس منصوبے پر پیش قدمی سے قبل ہی مگر ایک نوجوان نے اتوار کے روز ان کی جان لینے کی کوشش کی۔

ربّ کریم کی بنائی مخلوق کی چند اقسام ایسی ہیں جو کرہ ارض سے معدوم ہورہی ہیں۔علمی زبان میں انہیں Endangered Speciesکہا جاتا ہے۔نواز شریف کے نام سے وابستہ پاکستان مسلم لیگ کے سرکردہ رہ نماﺅں کا شمار بھی ان Speciesمیں ہونا چاہیے۔

اقتدار کے ظالم کھیل میں عروج وزوال معمول کی باتیں ہیں۔ کرپشن کے الزامات کے تحت سیاسی عہدوں سے فراغت بھی وطنِ عزیز میں انہونی بات نہیں رہی۔ قیامِ پاکستان کے چند ہی ماہ بعد پروڈا نام کا ایک قانون آگیا تھا۔ ایوب خان نے EBDOمتعارف کروایا۔ جنرل ضیاءنے سیاستدانوں میں قاتل اور غدار تلاش کئے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا۔ جنرل مشرف نے احتساب بیورو کے ذریعے سیاستدانوں کو راہِ راست پر رکھنے کا بندوبست کیا۔ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو ان الزامات کے تحت اقتدار کے کھیل سے باہر رکھنے کے مناسب انتظامات بھرپور انداز میں میسر ہیں۔

ان سب انتظامات کے ہوتے ہوئے بھی لیکن ایک انتہائی خطرناک گیم لگائی گئی۔ انتخابی قوانین کو سادہ تر بنانے کے لئے چند اقدامات اٹھائے گئے ۔میں آج بھی اصرار کرتا ہوں کہ ان اقدامات کے ذریعے کسی ”غیر مسلم“ کے لئے خود کو مسلمان ظاہر کرنے کا راستہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک حلف نامے کی بابت مگر ایک داستان گھڑلی گئی۔ تاثر پھیلادیا گیا کہ مذکورہ حلف نامے کی زبان ”منکرینِ ختم نبوت“ کی سہولت کار ہے۔اس الزام کو رد کرنے کے لئے پارلیمان کے ایوانوں میں بھرپور بحث کی راہ نکالنے کی جرات مگر کسی ایک رکن پارلیمان نے بھی ہرگز نہ دکھائی۔

گڈگورننس کی علامت بنے شہباز شریف نے بلکہ لاہور کے ایک اجتماع میں مذکورہ الزام کو درست قرار دیا۔ حکمراں جماعت نے اس ”اعترافی بیان“ کے بعد انتہائی عجلت میں معافی تلافی کا بندوبست کیا۔ میں بدنصیب تلملاتا رہا۔ فریاد کرتا رہا کہ جس ا نداز میں اس سارے قضیے کو ہینڈل کیا جارہا ہے وہ سارے ملک اور خاص کر اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں فساد پھیلائے گا۔ خود حکمران جماعت کے سرکردہ رہ نماﺅں کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ حکمران اشرافیہ نے مگر شتر مرغ والا چلن اختیار کرتے ہوئے ریت میں سرچھپانے ہی میں عافیت محسوس کی۔ عافیت مگر نصیب نہ ہوئی۔

راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والا فیض آباد چوک 22دنوں تک محاصرہ میں رہا۔ صحافیوں پر ایک ایک لفظ خوب سوچ بچار کے بعد لکھنے اور بولنے کی عادت مسلط کرنے والی ہماری بے پناہ طاقت ور ریاست اس محاصرے کے سامنے بے بس ہوگئی۔ بالآخر ایک ”’دستاویزِ شکست“ پر دستخط کرکے جان چھڑائی۔ انتخابی قوانین کو آسان بنانے کی کوشش کرنے والے زاہد حامد کو بھی فارغ کردیا۔

زاہد حامد نارووال کے ایک ہمسایہ قصبے سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ خواجہ آصف کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ وہیں ایک شہر شکرگڑھ بھی ہے۔ دانیال عزیز وہاں سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ ان دنوں توہینِ عدالت کے الزام کے تحت چلائے مقدمے کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ سب لوگ آئندہ انتخابات میں اپنے یا ان کی جماعت کے حمایت یافتہ افراد کی انتخابی مہم چلانے کے قابل نہیں رہے۔ان کے ”آبائی“ علاقوں میں ہر گلی کی نکڑ پر مذہبی بنیا دوں پر مشتعل ہوا کوئی نہ کوئی جوان تاک لگائے بیٹھا ہے۔ جوتے اور سیاہی اچھالنا قابلِ مذمت ہیں مگر جان لیوا نہیں۔ احسن اقبال کے واقعے نے بات پستول تک پہنچادی ہے اور مجھے اسی کا خدشہ تھا۔

2013کے انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی اور اے این پی کے نامزد کردہ امیدوارطالبان کے خوف سے محدود ہوگئے۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے بعد خوف کی یہ فضا ختم ہوجانا چاہیے تھی۔ ایسا مگر ہرگز نہیں ہوا۔ دینِ مبین کی غلط تشریحات کے ذریعے بھڑکائی آگ اب پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں پہنچ گئی ہے ۔نواز شریف کے نام سے وابستہ مسلم لیگ کے سرکردہ رہنما اس کا نشانہ ہیں۔ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے قبل انہیں سوبار سوچنا ہوگا۔ کسی اور جماعت میں پناہ لینی ہوگی۔ کم از کم ”آزاد“ ہونا پڑے گا۔

المیہ یہ بھی ہے کہ اپنی بے بسی کا دوش حکمران جماعت کسی اور کے سر نہیں رکھ سکتی۔ شہباز شریف جنہوں نے لاہور کے اجتماع میں حلف نامے سے متعلق لگائے الزامات کو جائز قرار دیااب اس جماعت کے سربراہ ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے فیض آباد کا محاصرہ کرنے والی جماعت سے لاہور کو رہائی دلوانے کے لئے ا یک اور معاہدہ بھی کیا ہے۔طاقت کا مرکز اس جماعت کی جانب منتقل ہوچکا ہے۔

اس جماعت کے پاس اب ویٹو پاور ہے۔ وہ فیصلہ کرے گی کہ کونسا امیدوار الیکشن کمیشن کی منظوری کے بعد بھی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے قابل ہے یا نہیں۔ اس جماعت کی ”ویٹوپاور“ کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمران جماعت کے پاس اب وقت ہی نہیں رہا۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے سرکردہ رہ نماﺅں کے لئے مناسب یہی ہے کہ انتخابی مہم سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا کفارہ ادا کریں۔ زمین پر ناک رگڑتے ہوئے جان کی امان طلب کریں۔

میری تجویز ناگوار محسوس ہورہی ہے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صرف اتنی ہمت دکھائیں کہ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلا س میں کھڑے ہوکر وہ سب باتیں بعینہ بیان کردیں جو صحافیوں کے ایک وفد کے روبرو فیض آباد دھرنے کے ضمن میں اپنی بے بسی کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے بہت تفصیل سے چند ہفتے قبل سنائی تھیں۔ وہ سچ بیان کردیں تو شاید لوگوں میں ان کے لئے رحم کے جذبات پیدا ہوں۔ حقیقت بیان نہیں کرسکتے تو اشاروں کنایوں میں کسی اور کو اپنی بے بسی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوششیں ترک کردیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).