1990ء میں بے نظیر حکومت کی برطرفی: حقیقی وجوہات


1990ء میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کی بڑی وجوہات میں ایک بڑا سبب ان کا عوامی سطح پر یہ بیان بھی تھا کہ پاک فوج نے یورینیم کی افزودگی میں اس ریڈ لائن کو پار کیا ہے جو بڑی طاقتوں کے لئے قابل قبول نہیں۔ یہ دعویٰ سندھ میں ایم آئی کے سابق چیف بریگیڈئیر(ر) حامد سعید اختر نے ’’دی نیوز‘‘ سے بات چیت کے دوران کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بظاہر بھاری کرپشن‘ پکا قلعہ کراچی میں پولیس آپریشن بھی وجوہات تھیں مگر پی پی لیڈر کی حکومت کی سابق صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی کی بعض دیگر وجوہات بھی تھیں جنہیں میں ظاہر نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب غلام اسحاق خان کے سامنے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ناقابل تردید شواہد پیش کئے گئے تو سابق صدر نے متعلقہ حکام کو بی بی کے لئے ایک بریفنگ کے اہتمام کی ہدایت کی تاہم اس کے بعد بھی صورتحال بہتر نہ ہوئی جس پر سابق صدر کو آرٹیکل 58 (2) بی کو حرکت میں لانا پڑا۔

بریگیڈئیر (ر) حامد نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو تحریری بیان جمع کرایا جس میں وجوہات بتائی گئیں کہ سیاستدانو ں میں کیوں رقوم تقسیم ہوتی ہیں؟ فاضل عدالت کے معزز ججوں نے میرا بیان پڑھنے کے بعد کہا کہ میرے بیان کے پہلے 9 پیرے کیس سے متعلق نہیں اس لئے میں ان پیروں کو خفیہ رکھنے کا دعویٰ کر سکتا ہوں تاہم میں نے واضح کہا کہ اگر ان پیروں کو میرے بیان کا حصہ نہ بنایا جائے تو میرے بیان کا مکمل مقصد نہیں سمجھا جا سکے گا جس پر میرے بیان کو کیس کا حصہ بنایا گیا۔

بریگیڈئیر (ر) حامد کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو پیش کئے گئے بیان کے مطابق 1990ء میں وہ ڈی آئی خان میں ایک آرٹلری بریگیڈئیر کی کمان کر رہے تھے‘ اس سال بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں آنے والی تیزی کے باعث بھارت اور پاکستان دونوں نے سرحدی علاقوں میں فوجیں بھیج دی تھیں کراچی میں ملٹری انٹیلی جنس کے علاقائی دفتر کو موصول ہدایت پر ان کی بریگیڈ بھی سرحدی علاقے میں پہنچی تو انہوں نے کور کمانڈر سے بات کی اور درخواست کی کہ وہ لڑائی کے دوران اپنے فوجیوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا کوئی انٹیلی جنس کا پس منظر یا اس حوالے سے باقاعدہ تربیت بھی نہیں۔ کور کمانڈر نے کہا کہ سندھ میں سکیورٹی کی بگڑی صورتحال کو قابو کرنے کے لئے ان کی کراچی میں خدمات فوری درکار ہیں جس کے مطابق انہوں نے نئے ڈیوٹی سٹیشن کو رپورٹ دی اور 23 جولائی 1990ء کو کمان سنبھالی۔

بریگیڈئیر (ر) حامد نے کہا کہ اس وقت ایم کیو ایم حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے الگ ہو چکی تھی۔ پی پی پی کارکن سیاسی بے وفائی کا ایم کیو ایم سے بدلہ لینے کے لئے طاقت استعمال کر رہے تھے، ایم کیو ایم اپنے مسلح سیاسی کارکنوں کے ذریعے زیادہ پرتشدد جواب دے رہی تھی ۔ پی پی پی ، ایم کیو ایم، پی پی آئی، جے آئی اور جے ایس ایم کی سرگرمیاں صرف ایک دوسرے کو قتل کرنا ہی رہ گئی تھیں، روزانہ 100 سے 110ہلاکتیں اور لاتعداد افراد زخمی اور معذور ہو رہے تھے۔ پی ایس ایف، اے پی ایم ایس او،آئی جے ٹی اور جے ایس کیو ایم مخالف جماعتوں کے کارکنوں کو قید کر کے انہیں ہولناک اور غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے جس میں ان کے جسم کے جوڑوں میں مشین سے سوراخ کرنا اور بجلی والی مشینوں سے حساس حصے کاٹنا شامل تھا۔ میں نے فوری ایم کیو ایم کے طارق عظیم ، ڈاکٹر عمران فاروق اور سلیم شہزاد، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور، جے ایس ایف کے ڈا کٹر حمیدہ کھوڑو اور ممتاز بھٹو، جے ایس کیو ایم کے عبدالوحید آریسر اور پی پی آئی کے مختار اعوان (غلام سرور اعوان؟) سے ملاقاتیں کیں اور انہیں سخت پیغام دیا کہ اگر انہوں نے قتل، اغوا، لوٹ مار بند نہ کی تو امن کی بحالی کیلئے فوج کو قدم اٹھانا پڑے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ابتدائی طور پر متحارب گروپوں نے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی تردید کی تاہم جب ان کے جرائم کے ناقابل تردید شواہد پیش کئے گئے تو انہوں نے اس نصیحت کو سنجیدگی سے لیا۔ انٹیلی جنس کی مداخلت کے سکیورٹی صورتحال پر فوری اثرات ظاہر ہوئے، ایک ہفتے میں یومیہ قتل کی شرح 100 اور 110 سے کم ہو کر 20-30 تک آگئی۔ دوسرے متحارب گروپوں کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا اور یہ کام کراچی کور ہیڈکوارٹرز میں کیا گیا۔ ریٹائرڈ بریگیڈیئر نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ سارا کام محض مذاکرات اور بات چیت سے کیا گیا۔ ایک گولی نہیں چلی، کسی کو غیر قانونی طور پر محصور نہ کیا گیا اور نہ ہی معلومات کے حصول کیلئے کسی پر کوئی تشدد کیا گیا۔ میر ی بنیادی ذمہ داری کی اہمیت یہ تھی کہ مجھے اندرونی سلامتی امور میں انٹیلی جنس اطلاعات کی ذمہ داری دی گئی کیونکہ اس وقت اندرونی سلامتی کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کے فوری بعد صوبائی حکومت نے پکا قلعہ حیدر آباد میں آباد مہاجر آبادی کے خلاف اس روز پولیس آپریشن شروع کیا جس روز وزیر اعظم‘ چیف آف آرمی سٹاف اور کورکمانڈر بیرون ملک دورے پر تھے اور فوجی یونٹ سالانہ مشقوں میں مصروف تھے۔اس آپریشن کے دوران پولیس نے درجنوں مردو خواتین اور بچوں کو قتل کیا۔ یہ معاملہ اعلیٰ قیادت تک پہنچایا گیا ، صدر غلام اسحاق خان نے فوج کو باہر آنے اور یہ کشت و خون بند کرانے کا حکم دیا۔سٹیشن کمانڈر حیدر آباد نے فرائض کیلئے تقریباً 300 جوانوں کو اکٹھا کیا اور اس مقام پر پہنچے، ان کی مداخلت پر پولیس فورس پیچھے ہٹی، وزیراعظم بینظیر بھٹو نے پاکستان واپسی پر پریس میں بیان دیا کہ فوج نے مہاجروں کو پی او ایف میں تیار شدہ ہتھیار فراہم کئے، پولیس نے یہ ہتھیار برآمد کرنے کیلئے پکا قلعہ کا گھیرائو کیا، جب پولیس فورس اس ذخیر ے تک پہنچنے والی تھی تو فوج کود پڑی اور فوجی گاڑیوں میں ہتھیار اٹھا کر لے گئے، اس بیان سے ہر ایک کو سخت صدمہ ہوا۔

بریگیڈیئر (ر) حامد نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ اس واقعے کے بعد مہاجر رابطہ کمیٹی نے بیان جاری کیا کہ مہاجروں کو اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے بھارت کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ بھارت نے بھی فوری ردعمل جاری کیا اور کہا کہ مہاجر بھارت کے سابق شہری ہیں اور بھارت ریاستی دہشتگردی اور نسل کشی کے خلاف ان کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔ ان بیانات نے سابق مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کی یاد تازہ کردی جس کے نتیجے میں ہمارا ملک دولخت ہوگیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسی سال وزیراعظم نے عوامی سطح پر فوج پر تنقید کی کہ وہ یورینیم کو اس سطح پر افزدہ کرکے ریڈ لائن پار کر رہی ہے جو بڑی طاقتوں کیلئے قابل قبول نہیں اور انہوں نے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے خالصتان تحریک کچلنے کیلئے بھارت کی حمایت کا اظہار کیا۔

کچھ دن بعد وزیراعظم نے ان کی مشاورت کے بعد سندھ میں سالانہ مشقوں پر فوج پر تنقید کی۔ آئی ایس پی آر کو وضا حت دینا پڑی کہ قانون کے مطابق آرمی چیف کو ملک کے کسی حصے میں تربیتی مشقوں کیلئے کسی سے اجازت لینے کے پابند نہیں۔ ایم آئی کے سابق صوبائی چیف نے دعویٰ کیا کہ اس سال کے دوران حکومت نے ریلوے، پی آئی اے، کسٹمز ، کے پی ٹی، امیگریشن، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور دیگر حساس محکموں میں پرکشش اسامیوں پر الذوالفقا ر کے کارکنوں کو بھرتی کیا جس سے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا گیا۔ الذوالفقار کے ان کار کنو ں نے بھارت سے تخریب کاری، اغوا، بم دھماکوں، قتل عام اور دہشتگر د ی کے دیگر اقدامات کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ ان دہشتگردوں کا قابل اعتماد ریکارڈ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس موجود ہے۔ ان تمام امور سے عمومی کمانڈ ذرائع سے اعلیٰ قیادت کو آگاہ کیا گیا۔ عوام کا عمومی تاثر یہ تھا کہ حکمران جماعت سے عوام سے ووٹ حاصل کئے لیکن اس کے پاس ملک کو چلانے کا کوئی ویژن نہیں ۔ اس سے کچھ چیزیں سامنے آئیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 16 اگست 1990ء (اصل تاریخ 6 اگست 90ء) کو صدر غلام اسحاق خان نے آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے پی پی پی حکومت تحلیل کردی۔ سندھ میں جام صادق علی کو وزیراعلیٰ مقرر کرکے عبوری سیٹ اپ بنایا گیا۔ 12 ستمبر 1990ء کو ڈی جی ایم آئی میجر جنرل محمد اسد درانی نے کراچی کا دورہ کیا اور مجھے احکامات دئیے کہ مختلف بینکوں میں 6 اکائونٹ کھولیں اور ان کے نمبر مجھے ارسال کریں۔ان اکائونٹس پر نظر رکھیں۔ وقتاً فوقتاً ان اکائونٹس میں فنڈز جمع ہوں گے آپ ہر اکائونٹ میں ہفتہ وار بیلنس کے بارے میں مجھے آگاہ رکھیں۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ – رپورٹ فخر درانی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).