شناختی کارڈ نہ ہونے پر پندرہ سالہ طالبہ کو پولیس نے باپ سے چھین لیا


پانچ ہزار سالہ تاریخی کھنڈرات موھن جو دڑو گھومنے کے لئے آنے والی ایک لوکل فیملی کے ساتھ یہ واقعہ دو دن پہلے پیش آیا ہے۔ ضلع لاڑکانہ کا یہ علاقہ سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انورسیال کا ہے۔ حفاظت کرنے والی پہرے پر موجود پولیس ہی نے ایک پندرہ سالہ لڑکی کو اس لئے حراست میں لے لیا کہ اس کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا جب کہ وہ اپنے والد اور پورے خاندان کے ساتھ تھی۔

خوبصورتی کے ساتھ غریب ہونا، اور خاص طور پر موجودہ سندھ میں ہونا اور پھر اس مملکت خداد پاکستان میں ہونا کم عمر اور نوجوان لڑکیوں کے لئے ایک جرم سا بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے ارباب اختیار سن لیں کہ چھوٹے شہروں اور خاص کر دیہی علاقوں میں غریب لوگوں کی زندگی زہر بنی ہوئی ہے۔ ہر ایرا غیرا بدمعاش، چھوٹا بڑا وڈیرا، کرپٹ سیاستدان یا سرکاری افسر، پولیس والا یا پیر، میرغریب کی زندگی بلکہ اس کے پورے خاندان کی زندگی پہ مکمل قابض ہے۔ غریب کی فصل، ملکیت ( اگر کوئی دو کمرے کا گھر یا چار مربہ زمین ہے تو، اس کے پورے خاندان بلکہ کم سن و جوان بیٹیوں پر بھی ان طاقتور لوگوں کا مکمل قبضہ ہے

اب تو پولیس کی وردی میں ایس ایچ او کی ذمہ دار ترین پوسٹ پر رہنے والے ایسا گھناؤنا جرم کرنے لگے ہیں۔ حال ہی میں تھر کے علاقے عمر کوٹ کی تیرہ سالہ امیشا خاصخیلی کا واقعا سامنے ٓآیا ہے جس کو علاقے کی لیڈی ایس ایچ او خوشبخت آرائیں نے اس کے اپنے گھر سے اٹھا کر وڈیرے کے حوالے کیا۔ کل سندھ ہائی کورٹ حیدر آباد نے لیڈی ایس ایچ او خوشبخت اور دونوں وڈیروں کے خلاف کیس داخل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

اس کے بعد اب لاڑکانہ ضلع میں موھن جو دڑو کے نزدیک ایک رونگٹے کھڑے کرنے والا والا واقعہ پیش آیا ہے جس سے سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا اب بیٹی اپنے باپ اور پورے خاندان کے ساتھ بھی محفوظ نہیں؟ چھہ مئی کو اتوار کے دن ڈوکری شہر کے منگریو گاؤں کا رہواسی محمد بچل منگریو اپنے گھر والوں کو موھن جو دڑو گھمانے لے کر آیا۔ دیگر گھر والوں کے علاوہ اس کی بیٹی نویں جماعت کی طالب علم عروسہ منگریو بھی ان کے ساتھ تھی۔ موھن جو دڑو، لاڑکانہ ایئرپورٹ تھانہ کی حدود میں ہے۔ اس تھانے کے اھلکاروں نے اس خاندان کو روکا اور ان کے شناختی کارڈ چیک کیئے۔ لوکل علاقے کا ہونا، پورا خاندان ساتھ ہونا کچھ کام نہ آیا اور پولیس عروسہ منگریو کو اپنے گھر والوں اور والد کے سامنے یہ کہہ کر ساتھ لے گئی کہ عروسہ اس کی بیٹی نہیں اور اگر ہے تو اس کا شناختی کارڈ دکھاؤ۔ جب کہا گیا کہ عروسہ منگریو ابھی چھوٹی ہے اس کا شناختی کارڈ نہیں بنا پھر بھی پولیس نے ایک نہ سنی اور خاندان کو سسکتا، چیختا، دھاڑیں مارتا ہوا پیچھے چھوڑ کر لڑکی کو حراست میں لی لیا۔

گاؤں والوں نے احتجاج کیا، لاڑکانہ ڈوکری روڈ بند کیا، میڈیا پر خبر نشر ہوئی تو پولیس نے موقف اختیار کیا کہ لڑکی کو اس شک کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا کہ لڑکی اس گھرانے کی نہیں ہے۔ اب مملکت پاکستان میں ایک جوان بیٹی اپنے آبائی علاقے میں اپنے والد، بھائی بہنوں، ماں اور گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ گھومنے بھی نہیں نکل سکتی، اگر نکلے گی تو پولیس اس کو اس بنا پر حراست میں لے سکتی ہے کہ پولیس کو شک ہے کہ یہ لڑکی اس خاندان کی نہیں ہے۔ یہ ہم کس حیوانی حکمرانی میں پہنچ گئے ہیں؟

پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کو وومن تھانے پر لاکر رکھا گیا تھا، جبکہ لڑکی کا میڈیا پر بیان آیا ہے کہ اس کو تھانے کے کوارٹر کے ایک کمرے میں رکھا گیا تھا اور ایس ایچ او نے اس کے ساتھ تصویریں بنائیں۔ بہرحال کل ایڈیشنل سیشن جج لاڑکانہ محمد الیاس میمن کی عدالت میں اس معاملے کی شنوائی ہوئی۔ عروسہ منگریو نے عدالت میں بیان دیا کہ میں اپنے والد اور دیگر گھر والوں کے ساتھ موھن جو دڑو گھومنے گئی تو ایس ایچ او نے ہمیں تنگ کیا، بدتمیزی کی اور شناختی کارڈ نہ ہونے کا بہانہ بنا کر حراست میں لے لیا۔

عدالت نے لڑکی کو اس کے گھر جانے، ایس ایچ او عبدلوھاب رند اور دیگر اھلکاروں کے خلاف ایف آر درج کرنے کا حکم جاری کیا ہے جبکہ ایس ایس پی لاڑکانہ نے ایس ایچ او عبدلوھاب اور ہیڈ کلرک طالب کو معطل کر دیا ہے۔ پولیس اھلکاروں کو سزا ہوگی کہ نہیں کہ یہاں انصاف اتنا مشکل اور مہنگا کر دیا گیا ہے کہ غریب فریادی علاقے کے با اثروں کے دباؤ پولیس کے خوف اور بدمعاشوں کی دھمکیوں کی وجہ سے دن دہاڑے ہونے والے خون پر بھی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یہ تو پھر بھی چوبیس گھنٹے کا اغوا ہے مگر اس واقعے سے ایک بات یہ سامنے ضرور آئی ہے کہ موھن جو دڑو کے پانچ ہزار سالہ اس تاریخی شہر کو کوئی فیملی کے ساتھ دیکھنے کے لئے جانے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گا کہ وہاں پر تعینات کوئی ایس ایچ او پولیس ان سے ان کی بیٹی نہ چھین لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).