‘بس بہت ہو چکا’ ترکی کے صدر کے لیے انتباہ
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے عہدے سے الگ ہونے کے لیے کی سوشل میڈیا پر دس لاکھ سے بھی زیادہ لوگوں نے ‘تمام’ یعنی ‘بس بہت ہوا’ کہہ کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
گذشتہ روز سوشل میڈیا پر ہیش ٹيگ Tamam# کے ساتھ آج TAMAMDIYORUZ# بھی دنیا بھر میں ٹرینڈ کر رہا ہے۔
یہ اس وقت مزید تیزی کے ساتھ پھیل گیا جب صدر نے منگل کو پارلیمان میں کہا کہ اگر لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں تو وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انھوں نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ‘جس دن ہمارے ملک نے تمام (اب بس بہت ہو چکا) کہہ دیا اس دن ہم اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائيں گے۔’
خیال رہے کہ رجب طیب اردوغان ترکی کی حالیہ تاريخ میں سب سے زیادہ مقبول اور منقسم سیاست داں رہے ہیں۔ انھوں نے ملک پر تقریبا 15 سال حکومت کی ہے اور اس دوران ملک نے تیزی کے ساتھ معاشی ترقی کا منہ دیکھا ہے جبکہ انھوں نے اپنے مخالفوں کے خلاف سخت کارروائی بھی کی ہے۔
انڈیا کی معروف یونیورسٹی میں ترکی زبان کے اسسٹینٹ پروفیسر محسن علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رجب طیب اردوغان دور جدید کے کمال اتاترک ہیں۔ انھوں نے ملک کو جو استحکام اور معاشی ترقی عطا کی ہے وہ ایک مثال ہے اور انھوں نے پڑوسی ملکوں سے بھی ترکی کے تعلقات بہتر کیا ہے۔
#TAMAMDIYORUZ ✋🏼 pic.twitter.com/7FfV1hbcb9
— Nazlı Çiftçioğlu (@nasssliBen) May 9, 2018
گذشتہ ماہ صدر اردوغان نے معینہ مدت سے ایک سال قبل ہی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا اور اس کی تاریخ 24 جون مقرر کی تھی۔
گذشتہ روز پارلیمان میں ان کی تقریر کے فورا بعد ہیش ٹیگ ‘تمام’ ترکی زبان سمیت مختلف زبانوں میں دنیا بھر میں ٹرینڈ کرنے لگا۔
ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا: ‘ہم جمہوریت چاہتے ہیں اس لیے ہم اردوغان سے اب بس بہت ہو چکا کہتے ہیں۔ برائے کرم اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ آپ نے ہمارے ملک اور لوگوں کے ساتھ پاگل پن کی چیزیں کیں۔ اب بس بہت ہو چکا۔’
ایک دوسرے صارف نے لکھا: ‘آپ خاموشی کے ساتھ اپنے عہدے سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔ آپ کو اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ اب بس بہت ہو چکا۔’
https://twitter.com/deniizucak/status/993916652814204928
اس کے بعد اردوغان کے مخالف صدارتی امیدوار بھی اس میدان میں اتر آئے اور ان کے ٹویٹ کو دس ہزار سے زیادہ بار ری ٹویٹ کیا گيا۔
اہم حزب اختلاف سی ایچ پی کے امیدوار محرم انسے نے کہا: ‘وقت ہو چکا ہے۔ اب بس بہت ہو چکا۔’
خیال رہے کہ ترکی میں سوشل میڈیا مخالفت کے اظہار کا بڑا وسیلہ تصور کیا جاتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ہیش ٹيگ تمام نے حزب اختلاف کو متحدہ ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔
صحافی روزن چاکر نے لکھا: ‘اب بس بہت ہو چکا۔ یہ بہت حیرت کی بات ہے کہ اردوغان نے حزب اختلاف کو متحد ہونے کا نعرہ فراہم کر دیا۔’
بہر حال حکومت نے سوشل میڈیا کی اس لہر کو مسترد کر دیا ہے۔ حالانکہ بدھ کی صبح تک اس کی تعداد 15 لاکھ عبور کر چکی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسے پی کے کے کے کرد جنگجوؤں اور فتح اللہ گولن کے حامیوں نے ہوا دی ہے۔
اردوغان کی حکمراں جماعت اے کے پارٹی کے ترجمان ماہر انل نے کہا: ‘ان میں سے زیادہ تر ان ممالک سے ہیں جہاں پی کے کے اور ایف ای ٹی او کے ارکان سرگرم ہیں۔ زیادہ تر طفیلی اکاؤنٹ ہیں۔’
خیال رہے کہ ایف ای ٹی او فتح اللہ گولن کے حامیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا: ‘کی بورڈ کے ہیرو جو بیلٹ باکس کا مطلب بھی نہیں جانتے انھیں 24 جون کی شب کو دیکھیں گے۔’
دریں اثنا بہت سے لوگ استنبول کی سڑکوں پر موم بتیوں سے تمام لکھتے نظر آئے جبکہ اس معاملے میں دس مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گيا۔
- میٹا کو فیس بک، انسٹاگرام پر لفظ ’شہید‘ کے استعمال پر پابندی ختم کرنے کی تجویز کیوں دی گئی؟ - 28/03/2024
- ’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایا - 28/03/2024
- ترکی کے ’پاور ہاؤس‘ استنبول میں میئر کی نشست صدر اردوغان کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).