ثناء چیمہ کا قتل اور ہٹلر کی خودکشی


 ہم سب انسان انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر بھی، قبیلہ در قبیلہ بھی، قوم در قوم بھی مجموعہ اضداد ہیں۔ جو کچھ بھی کہا یا بتایا اور سنایا جاتا ہے وہ نہ تو سارا سچ ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی سارا جھوٹ ہوتا یا ہو سکتا ہے۔ ہر کہی بات میں اور ہر کیے گئے عمل کے کئی کونے پوتے ہیں، کئی پرتیں اور کئی جہتیں۔ کہے، سنائے، بتائے گئے معاملات اور کیے گئے اعمال کی جانب یا تو توجہ دلانا مقصود ہوتی ہے یا ان سے توجہ ہٹایا جانا قصد ہوتا ہے۔ ایسے تو کرنا پڑتا ہے کیونکہ سب سچ کہیں تو سرائیکی اصطلاح کے مطابق “یارو سچیار” بن جائیں جس کا ہر کوئی ٹھٹھا اڑاتا ہے اور جو کسی کو نہیں بھاتا، اس کے برعکس مکمل جھوٹ تو بہت جلد افشا ہو جاتا ہے اور سبھی جھوٹے مل کر ایک جھوٹے کے مخالف ہو جاتے ہیں چنانچہ اگر بہت جھوٹ بولے جائیں تو آہستہ آہستہ سب ایک دوسرے کے مخالف بن جائیں بلکہ دشمن ہو جائیں۔

 اب اس تحریر کے عنوان کو ہی دیکھیے۔ مضامین یا تجزیہ نگاری کے عنوان ایسے تو نہیں ہوا کرتے تھے مگر اب خبر کی سرخی کی طرح مضامین کے چونکا دینے والے اور توجہ کھینچ لینے والے عنوان دیے جانے کا رواج پڑتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ایک بہت پڑھے لکھے اور مستند صحافی اس طرح کے عنوانات کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسا کیے جانے کو اگر صحافت کا پاپولزم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مگر یہ انداز کوئی جدت طرازی نہیں ہے البتہ آج ضرورت شاید ہو کیونکہ لوگ جلدی میں ہوتے ہیں، عنوان توجہ لے گا تو باقی بھی پڑھ لینے کا تردد کر لیں گے۔ ویسے آج سے چالیس برس پہلے مکرمی سرور سکھیرا کے جریدے “دھنک” میں عزیزی حسن نثار نے یہ روش اختیار کی تھی جو تب مقبول نہ ہو سکی تھی۔ آج بھی اس کی مستقل مقبولیت کے بارے میں کم از کم میں مشکوک ہوں۔ ارے میں کیا غلط بات کہہ گیا، مقبولیت تو کبھی مستقل ہوا ہی نہیں کرتی ورنہ مقبولیت نہ کہلاتی شاید دل پذیری ہوتی۔

 خیر ہم بات کر رہے تھے نیم راست گوئی اور نیم دروغ گوئی کی۔ جو کہتے ہیں کہ ماحول انسان کو بدل دیتا ہے وہ کونسا درست کہتے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ ماحول انسان کو بدل ہی نہیں سکتا وہ کونسا صحیح کہتے ہیں۔ دیکھیں نا، یہ جو ثناء چیمہ نام کی لڑکی تھی، جس بیچاری کی قبر کشائی کی گئی اور معلوم کیا گیا کہ وہ مری نہیں بلکہ گلا گھونٹ کر ماری گئی تھی، اطالیہ میں رہنے کی وجہ سے بدل ہی گئی تھی تبھی تو اس کے ساتھ اطالیہ میں ہی رہنے والے اس کے باپ نے اسے قتل کر دیا ہوگا کیونکہ وہ اطالیہ میں رہتے ہوئے بھی نہیں بدل پایا تھا۔ سرائیکی میں ایک کہاوت ہے کہ جاٹ جتنا بھی آگے نکل جائے مگر اس کا عقب پیتل کا ہی رہے گا۔ ویسے سرائیکی علاقے میں جٹ صرف جاٹ کو نہیں بلکہ سبھی دیہاتی کسانوں کو کہا جاتا ہے مگر یہ محاورہ نامعلوم جاٹ کے لیے ہے یا سرائیکی میں کہے جانے والے جٹ کے لیے۔ ایک بات البتہ واضح ہوتی ہے کہ جاٹ کا بدلنا مشکل ہوتا ہے۔ یا تو وہ اس دھرتی سے یکسر رابطہ کاٹ لے لیکن اگر لوٹنا ہی ہو یا آنا جانا لگا رہے تو اس کو جاٹوں کی روایات کا پاس کرنا ہی پڑے گا کیونکہ پنجاب کی ہی ایک کہاوت ہے کہ جاٹوں کی نانی مشترکہ۔

ہر قبیلے کا اپنا خاص کردار ہوتا ہے۔ اس پر روس میں خاص طور پر اور یورپ میں بھی فلمیں بنی ہیں۔ خاص کردار کی وجہ ماضی کا وہ اثاثہ ہوتا ہے جسے ابھی تک ترک نہ کیا جا سکا ہو۔ دیکھیے ریت روایات کا قلعہ تبھی ڈھایا جا سکتا ہے جب معیشت بالکل صنعتی ہو جائے اور سماجی روابط یکسر بدل جائیں۔ یورپ میں اگر کہا جائے کہ ماضی کا نوے فیصد اثاثہ متروک ہو چکا ہے تو شاید درست ہو مگر بہت سی جگہوں پر ترک و اختیار کی شرح مختلف ہے۔

 پاک و ہند میں قبائل کی جگہ ذات برادری نے لے لی۔ برادریوں کے بندھن بہت عجیب ہونے کے ساتھ اب بھی بہت مضبوط ہیں۔ بہت سی برادریاں آج بھی اپنی برادری سے باہر رشتے نہیں کرتیں۔ پھر بات برادری تک ہی موقوف نہیں، گاؤں تو سارا کا سارا برادری کی طرح ہوتا ہے۔ یورپ جانے والے بیشتر لوگوں کا تعلق دیہاتوں سے ہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم ثناء چیمہ نے کیا کیا تھا مگر ایک بات سمجھ آتی ہے کہ اسے اٹلی میں نہیں مارا جا سکتا تھا۔ راز کھل جاتا، سزا بھی سخت ہوتی۔ گاؤں میں بات چھپایا جانا سہل سمجھا گیا تو یہاں لا کے مارا گیا۔ ان کے خیال میں جو بدنامی ثناء کی وجہ سے تھی وہ غیرت کے نام پر قتل سے کم ہو گئی ہوگی مگر انہوں نے تو دھڑلے سے یہ بھی نہیں کہا کہ ہم “غیرت مند” اس ” بے غیرت” لڑکی کو مار رہے ہیں۔ چیمے اپنی لڑکی کو مار کے سوچ رہے ہونگے کہ معاملہ تمام ہوا مگر مرنے والی تو اطالوی تھی، چنانچہ شوروغوغا ہوا پکڑے گئے۔

دوسری جانب 1945 میں ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی۔ سرخ فوج نے 9 مئی کو “بنڈز سٹاگ” پر اپنا پرچم لہرا دیا تھا۔ 9 مئی تب کے سوویت یونین اور آج کے روس کا یوم فتح ہے یعنی غیرت و ناموس کی حفاظت کا دن۔ ہٹلر نے جاٹ بننے کی کوشش کی تھی۔ میرا مقصد جاٹ دوستوں کو ناراض کرنا نہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ دیہاتوں میں “سجی دکھا کے کھبی مارنے” کا آج بھی رواج ہے۔ سوویت یونین اور ہٹلر کے جرمنی میں ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ہو گیا تھا۔ بیچ میں بیچارا پولینڈ تھا۔ سوچا تھا کہ اس کو آپس میں بانٹ لیں گے مگر ہٹلر تو جاٹوں کی طرح باقی سب کو ارائیں سمجھتا تھا۔ ارائیں چاہے اعلٰی ترین عہدے پر ہو مگر جاٹ کے دل سے پوچھیے تو آپ کو ماسوائے تعصب کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ “پیاز کھانے والی قوم” میں نے یا آپ نے تو مشہور نہیں کیا ہوا۔ تو بھائی جٹ ہٹلر چڑھ دوڑا راشن پر پلنے والی قوم پر۔ مارو مار کرتا ہوا پہنچ گیا ان کے دارالحکومت کے نزدیک مگر روسیوں کی برادری بڑی مضبوط ہے اور ان کے پاس تب بیسیوں ملکوں کے ساتھی بھی تھے۔ چل بھئی کٹتے بھی چلو ، بڑھتے بھی چلو۔ کمیونزم کے شدید دشمن ملکوں برطانیہ اور امریکہ نے سوویت یونین کے لیے جنگی امداد کے دروازے کھول دیے۔ بالآخر ایک روز جب سوویت یونین کی سرخ فوج اور امریکہ کی نیلی وردی والی فوج دریائے ایلبا پر مل کے جرمنی کی شکست کو یقینی بنانے والی تھی کہ خبر ملی، ہٹلر نے مبینہ طور پر خود کشی کر لی۔ اس کی تو قبر کشائی بھی نہیں کی جا سکی۔ ایک جلا ہوا مردانہ جبڑا البتہ روسیوں کے پاس محفوظ ہے جسے وہ ہٹلر کا جبڑا بتاتے ہیں۔ ویسے یہ ظالموں کے جلے ہوئے جبڑے ہی کیوں ملتے ہیں بالآخر؟

 سارا سچ تو کسی کو بھی معلوم نہیں کیونکہ جو بتایا جاتا ہے، سنایا اور دکھایا جاتا ہے وہ فاتحین کا سچ ہے۔ مفتوحین کو اول تو بولنے کی اجازت ہی کہاں دی جاتی ہے اور بولیں بھی تو ان کی کون سنے گا۔ اس جنگ عظیم میں سارا وسط ایشیا اور برصغیر اپنے جوانوں کی قربانی دے چکا ہے البتہ برصغیر پر 1947 کے وحشیانہ فسادات کے دکھ 1941۔1945 کے دکھوں پر غالب آ گئے تھے۔

 ثناء چیمہ قتل ہو یا ہٹلر مبینہ طور پر خود کشی کر لے۔ حقیقت مکمل طور پر آشکار ہونے سے رہی۔ یوم فتح تو منانا ہوتا ہے اور غیرت بھی پاکستان میں تا حال خاصی قوی ہے۔ میں کون ہوتا ہوں غیرت سے کنارہ کشی کرنے اور مفتوحین کے مقتولین کے قتال کی خوشیاں منانے سے روکنے والا۔۔۔ نہیں بھائی مجھے بھی “یارو سچیار” بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).