خلائی مخلوق اور میاں صاحب


بچپن میں گھر کی چھت پر جاکر آسما ن کی جانب گھنٹوں دیکھا کرتی تھی۔ اس دوران معصومانہ خیالات آتے تھے۔ جن کے سبب بہت سوالات زہین میں پیدا ہوا کرتے تھے۔ جنھیں میں امی سے بار بار پوچھا کرتی تھی۔ بات آسمان کے نیلے پن سے شروع ہوتی اور خلا تک چلی جاتی تھی۔ پھر بات سے بات میں خلائی مخلوق کا ذکر آجاتا تھا۔ میں اکثر امی سے سوال کرتی کہ کیا خلائی مخلوق ہماری طرح کی ہوتی ہیں؟ کیا ان کے بھی بچے اسکول جاتے ہیں؟ کیا ان کو بھی ٹیسٹ کی تیاری نہ ہونے پر ٹیچر سے ڈانٹ یا مار پڑتی ہے؟ امی میرے عجیب سے سوال پر اپنی جان چھوڑانے کے لئے کہا کرتی جاؤ پڑھائی کرو مجھے تنگ نہ کرو۔ لاشعوری سے شعور کی جانب گا مزن ہو کر پڑھائی مکمل کی اور کچھ نہ بنتے ہوئے صحافی بن گی۔ اب خبر سے رشتہ جوڑے ہوئے چھ سال بیت گئے۔ زندگی کے 30 ویں سال پھر خلائی مخلوق کی بازگشت سنائی دی۔

زہین میں یکایک کم سنی کے لمحات فلم کی طرح چلنے لگے۔ جنہیں میری ماں احمقانہ باتیں کہا کرتی تھی آج یہ باتیں ملک پر تین بار حکومت کرنے والا شخص کہہ رہا تھا۔ جنھیں سیاست سے وابستہ ہوئے کم و بیش چالیس سال تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ سچ ہے بوڑھا بچہ برابر ہوتا ہے۔ جو باتیں میں کم سنی میں سوچا کرتی تھی۔ وہ باتیں آج ایک معمر شخص کہہ رہا تھا۔ جناب کا کہنا ہے کہ ان کا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے۔ ارے حضور آپ تو بہت پہنچے ہوئے ہیں عنقریب انتخابات خلائی مخلوق سے لڑ رہے ہیں جبکہ سابقہ انتخابات میں جناب کو نا جانے کو نسے فرشتے نتائج آنے سے قبل جیت کی نوید دے چکے تھے۔ یاد ہے، آپ نے نصف شب کے بعد ہی اپنے وزیراعظم بنے کی اطلاع نشرو اشاعت کے مرکز تک پہنچا دی تھی۔

ارے ہاں یاد آیا آج آپ جن کو خلائی مخلوق کہہ رہے ہیں ماضی میں وہ آپ کے روحانی باپ بھی تو تھے۔ اب بھلا کون بھول سکتا ہے ضیاء صاحب کو، جن کی ضیافت کی بدولت آپ تاجور ہوئے ہیں۔
کیسے بھول جائیں اصغر خان کیس کی بے توقیری کو، حالانکہ جب آپ برسر اقتدار تھے تو بہت آسانی سے اس کیس کے مندرجات کے تحت شفاف تحقیقات کروا سکتے تھے۔ مگر جب آپ اور آپ کے چاںنے والے اندھیری راتوں میں ہیڈ کورٹ آف خلائی مخلوق کے طواف کرنے میں مصروف تھے۔

اگرچہ آپ نے کچھ ہوشیاری دیکھاتے ہوئے، خلائی مخلوق کے دو رکن کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا تو کیا تاہم الٹی آنتیں گلے پڑ گئی اور آپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔ بعد ازاں دس سال تک مادر وطن کے ہوا پانی آپ پر بند ہو گئے۔ آپ ملک بدر ہوگئے۔

ماضی قریب میں پھر تقدیر نے آپ کو موقع دیا۔ آپ بر سراقتدار آئے۔ اس دوران خلا ئی مخلوق کا ایک سابق اہم رکن آپ کی ناک کے نیچے سے نکا ل گیا اور آپ اتفاق کے سریے کے لئے موٹر ویز کی تعمیرات میں ہی مصروف رہے۔ چونکہ ماضی میں آپ اہم ادارے کے دو اہم رکن مدمقابل لانے کا جرم کر چکے تھے اس لئے دودھ کے جلوں نے چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیا۔ آپ جن کو اپنے صوبے کی پولیس کے جیسا بنا نا چاہ رہے تھے شاید وہ آپ کے ارادے بھانپ گے یا تقدیر نے ڈھایا ایک نیا ستم جس کے سبب خودسا ختہ بادشاہ سلامت کے نسل در نسل سلطنت کرنے کے خواب بکھر کر
”مجھے کیوں نکالا ” میں تبدیل ہوگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).