بچوں کی تعلیم و تربیت اور گھٹن زدہ معاشرہ



ایک معتدل موسم والے خوشگوار دن کی صبح آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر ایک زبردست سا ناشتہ تیار کرتے ہیں اور جیسے ہی ناشتہ کرنے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہیں آپ کی نظر ایک ایسی خبر پر پڑتی ہے۔

” گجرات۔ بربریت کی انتہاء ایک اور ننھا پھول درندگی کا شکار سات سالہ حمزہ مبینہ زیادتی کے بعد قتل لاش کھیتوں سے برامد

گجرات۔ تھانہ کنجاہ کے علاقے جسوکی میں سات سالہ حمزہ کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کر لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔ ورثاء کے مطابق سات سالہ حمزہ اپنی دادی کے ساتھ گھر سے کھیتوں کی طرف گیا جو راستہ میں غائب ہو گیا۔ چند گھنٹوں بعد حمزہ کی لاش کھیتوں سے برآمد ہوئی جسے مبینہ زیادتی کے بعد گلہ دبا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاش قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لئے ہسپتال منتقل کر کے والدہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ حمزہ اکلوتا بیٹا تھا اور اس کا باپ حمزہ کی پیدائش سے پہلے روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک سپین مقیم تھا۔ بدقسمت باپ کو اپنے اکلوتے پھول کے ساتھ کھیلنا تک نصیب نہ ہوا۔ ورثاء کا وزیراعلیٰ اور چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل۔ ”

آپ کا دل ایک عجیب سی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی کوئی پہلی خبر تو نہیں۔ لیکن ہر ایسی خبر آزردہ کر جاتی ہے۔ کوئی بھی صاحب دل ایسی کسی بھی خبر سے اپنے دن کے آغاز کا کبھی بھی متمنی نہیں ہو گا۔

غم و غصہ، دکھ، کچھ نہ کر سکنے پر بے بسی کا احساس، لعنت ملامت۔ اس کے علاؤہ ہم کچھ نہیں کر سکتے یا شاید کرتے نہیں۔

کچھ عرصہ قبل اپنے پوش رہائشی علاقے کے ایک ایریا سے گزرتے ہوئے نظر دس مرلہ یا ایک کنال پر بنے ایک پرائیویٹ سکول پر پڑی تو یاداشت کے جھروکوں سے اپنے سکول و کالج جھانکنے لگے۔ اس سکول و کالج میں کھیل کے کئی کئی وسیع و عریض میدان تھے۔ سکول کی بلڈنگز میں کشادہ روشیں تھی اور ان روشوں کے ساتھ کیاریاں، جن میں قطار اندر قطار پھول اپنی بہار دکھاتے نظر آتے تھے۔ طلباء میں سے صبح سویرے پہنچ جانے والے طلبہ و طالبات ان روشوں پر مارنگ واک کا لطف لیا کرتے تھے۔ جس بات نے سوچنے پر اکسایا وہ یہ تھی کہ ان چھوٹے چھوٹے سکولوں میں کھیل کی ناکافی سہولیات میں بچے کیسے گزارا کرتے ہوں گے اور کیا یہ بچے کبھی ان محسوسات کو محسوس کر پائیں گے جنہیں ہم کرتے ہیں۔

دوسری سوچ یہ آئی کہ آج کے دور کے بچوں کے پاس تو شام میں باہر کھیلنے کے مواقع بھی بہت محدود ہیں۔ گھروں کے سامنے سے، حتی کہ والدین کی آنکھوں کے سامنے سے بچے اغواء کیے جا رہے ہیں۔ لے دے کہ ان بچوں کے پاس تفریح کی چیز ٹی وی، موبائل، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹاپ (گیجٹ) رہ جاتی ہے۔

اب وہ گیجٹ والدین چاہے اپنی خوشی سے لے کر دیتے ہیں یا بچے کی ضد پہ۔ ٹی وی چاہے والدین کی مرضی سے چلتا ہے یا بچوں کی مرضی سے۔ تفریح و وقت گزاری کے ان دونوں ذرائع پر بے شمار ایسا مواد چلتا ہے جو ناصرف بچوں کے لیے بلکہ بڑوں کے لیے بھی کوئی مثبت نتائج نہیں لائے گا۔ حتی کہ بسا اوقات موبائل میں ڈالی گئی گیمز کے دوران دکھائے جانے والے دیگر گیمز کے اشتہارات بھی انتہائی نامناسب ہوتے ہیں اور بارہ تیرہ سال کے بچے بھی، جو اپنے کلاس فیلوز اور کزنز کے ساتھ رابطے کی غرض سے موبائل ڈیٹا اور وائی فائی استعمال کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی اس مواد کا سامنا کرتے ہوں گے۔ کسی دوسری مثبت سرگرمی کی عدم موجودگی میں اس بات کے چانسز بہت زیادہ ہیں کہ بچے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسے مواد کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں اور آخرکار ایسی ہی سرگرمیوں میں پڑ جائیں۔

بظاہر شاید سکولوں میں کھیل کے میدانوں کی موجودگی اور منفی اور نقصان دہ سرگرمیوں کا آپس میں کوئی خاص تعلق نہیں لیکن تعلق ہے تو سہی۔

اب کیا وجوہات ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے گھٹے ہوئے ماحول میں رکھنے پر آمادہ ہیں۔
1۔ معیاری تعلیم کی خواہش اور سرکاری سکولوں میں تعلیم کی ناگفتہ بہ حالت۔ جس کے ذمہ دار ہمارے تعلیم کے محکمے اور سرکاری سکولوں کے اساتذہ ہیں۔
2۔ امن و امان کی وہ غیر تسلی بخش صورتحال جو اغوا کاروں کو پکڑنے اور انہیں قرار واقع سزا دینے میں ناکام رہتی ہے۔ جس کے ذمہ دار سکیورٹی کے وہ ادارے اور افراد ہیں جو اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت برتتے ہیں۔

3۔ والدین۔ جو صرف بچوں کی انگریزی میں اچھی بول چال کے لیے بہترین سرکاری سکولوں کی موجودگی کے باوجود ڈربہ نما سکولوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
4۔ مقابلے کی وہ خود ساختہ دوڑ جس میں سبقت لے جانے کے لیے والدین بچوں کو صبح سے دوپہر یا سہ پہر تک سکول میں اور سہ پہر سے شام یا رات تک اکیڈمز میں جھونکے رکھتے ہیں اور ان کو کھیل کود میں اپنی توانائیاں صرف کرنے سے روکے رکھتے ہیں۔

5۔ والدین کی وہ مصروفیات جو انہیں اپنے بچوں سے ایک ایسا مضبوط تعلق بنانے سے روکے رکھتی ہیں جہاں وہ اپنی ہر خوشی اور پریشانی سب سے پہلے ان سے شیئر کریں یا ان کی سرگرمیوں اور بدلتے ہوئے رویوں کی ممکنہ وجوہات پر غور کر سکیں۔
6۔ اساتذہ۔ جو ہمہ وقت سلیبس مکمل کرانے اور اپنی کلاس کے بہترین نتائج لانے کی فکر میں غلطاں رہے ہیں اور بچوں کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت میں کوئی مثبت اور فعال کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

گویا ان قبیح واقعات کا ذمہ دار کوئی فرد واحد نہیں۔ ان کا اصل ذمہ دار یہ گھٹن زدہ معاشرہ اور ہم سب ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس گھٹن ذہ معاشرے میں کھلی ہوا کی نوید لانے والے وہ دروبام لگانے ہیں جو ہمارے بچوں اور ان کے بچوں کو ایک صحت مند زندگی دے سکیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی توانائیوں کو مثبت راہ دکھانی ہے۔ ہم سب کو نہیں بھی بچا سکتے تو کم از کم اپنی دسترس میں موجود معاملات کی بہتری اور سوچی سمجھی حکمت عملی سے آئے روز ہونے والے ان واقعات کی تعداد میں کمی تو لا سکتے ہیں۔

شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا۔
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔

( بچوں کے تحفظ اور ان کی آگہی کے لیے قائم ایک غیر سرکاری گروپ Save The Angels And Fairies کے لیے لکھا گیا ایک آرٹیکل

عروج احمد۔ ینگ ویمن رائٹرز فورم اسلام آباد چیپٹر سے بحیثیت میڈیا ہیڈ وابستہ ہیں۔ کرکٹ، کمپیوٹر، سیاست، فوٹوگرافی اور سیاحت سے شغف ہے۔ کتابوں سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ لکھنا شوق ہے اور فلیش فکشن میں طبع آزمائی کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ گاہے بہ گاہے بلاگ بھی لکھتی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).