امریکہ کو ٹیلی ویژن ٹاک شو کی طرح چلانے کی کوشش


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدہ سے نکلنے کا اعلان کیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس سے براہ راست خطاب میں یہ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے اس معاہدہ کی خرابیاں بیان کرنے کے لئے سخت ترین الفاظ استعمال کئے اور ایران کو امریکہ اور دنیا کا سب سے بڑا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کے لئے جو دلائل د یئے ہیں ، دنیا کے بیشتر لیڈروں کے علاوہ خود ان کی حکومت میں شامل اعلیٰ ترین عہدیدار ان سے متفق نہیں ہیں۔ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ صرف اس لئے کیا ہے کیوں کہ یہ سابق صدر باراک اوباما کے دور میں طے پایا تھا اور وہ اپنے جوش خطابت میں امریکی عوام کے سامنے اس معاہدہ کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے اسے بدترین معاہدہ قرار دیتے رہے تھے۔ اب انہوں نے اپنے انہی انتہا پسند ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے ایران معاہدہ سے امریکہ کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح وہ امریکی عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں ، وہی کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات کا جواب دینے کے قابل نہیں ہیں کہ وہ اس قسم کے متنازع فیصلے کیوں کرتے ہیں۔ اور ان سے امریکہ کے مفادات اور دنیا کا امن کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔

 اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سیاسی اور سفارتی معاملات میں نابلد ہیں لیکن اپنی اس کمزوری کو دور کرنے کی بجائے، خود کو ہر شعبہ کا ماہر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لہذا کبھی وہ شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی بات کرتے ہیں اور پھر اس کے لیڈر کے ساتھ ملاقات کی دعوت قبول کرکے اسے بھی اپنی شاندار کامیابی قرار دیتے ہیں۔ ایران کے ساتھ چھ ملکوں کے معاہدہ سے نکلنے کی وجہ بھی ان کا یہی مزاج ہے۔ امریکی مبصرین اور تجزیہ نگار اس بات پر روشنی ڈالتے رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو توجہ حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے ۔ یہ شوق اس قدر شدید ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی صلاحیت سے تو بے بہرہ ہیں ہی کہ ان کے مختلف اقدامات کے کیسے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں لیکن وہ یہ سمجھنے کے قابل بھی نہیں کہ امریکہ کے صدر کے طور پر وہ بہر حال توجہ کا مرکز ہیں اور ان کی کہی ہوئی ہر بات یا اٹھایا گیا ہر قدم پوری دنیا میں دلچسپی سے سنا اور دیکھا جاتا ہے۔ اور ان کے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود اس کے برے یا بھلے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ شہرت کے شوقین اور خود حکم جاری کرنے والی شخصیت کے زعم میں مبتلا امریکی صدر اب ریاستی امور کو کسی ٹاک شو کی طرح چلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اس کے امریکہ کی شہرت، اعتبار اور پالیسیوں پر تو اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناتے اس رویہ سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور تنازعات میں اضافہ کا اندیشہ بڑھتا جارہا ہے۔ ایران معاہدہ ختم کرتے ہوئے اور اپنے یورپی حلیف ملکوں پر بھی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان ایک ایسا ہی فیصلہ ہے۔

 امریکی صدر اپنے کسی اعلان کے بارے میں پورا ڈرامہ تشکیل دیتے ہیں اور اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کو اس ڈرامہ کی تشہیر کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ایران معاہدہ کے بارے میں فیصلہ اس طرز عمل کی روشن مثال ہے۔ پہلے ٹرمپ کی طرف سے کئی ماہ تک یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ وہ 12 مئی کو ایران معاہدہ کے بارے مٰیں حتمی اعلان کریں گے۔ پھر سوموار کو ایک ٹویٹ میں اعلان کیا گیاکہ وہ منگل کو سہ پہر دو بجے ایران معاہدہ کا فیصلہ کریں گے۔ اس کے بعد یہ اعلان کرتے ہوئے معاہدہ کو مسترد کرنے کے لئے وہ سارے مبالغہ آمیز الفاظ استعمال کئے جو کسی اسٹیج پر توجہ کا مشتاق اداکار اپنے ڈائیلاگ میں جوش پیدا کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ تاہم وہ ایک بڑے ملک کے سربراہ اور مدبر لیڈر کے طور پر اس معاہدہ کے بارے میں اپنی شکایات سامنے لانے ا ور اس فیصلہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی لائحہ عمل دینے میں بری طرح ناکام رہے۔ اسی لئے امریکی میڈیا سمیت دنیا بھر کے لیڈر اور مبصر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریہ میں متنبہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلہ سے امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی اندوہناک جنگ میں ملوث ہو سکتا ہے حالانکہ صدر ٹرمپ یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ کی کسی نئی جنگ میں ملوث کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

ایران کے ساتھ طویل بات چیت کے بعد امریکہ کے علاوہ روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے 2015 میں ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایران یورینیم افزودہ کرنے کے عمل کو روکنے اور افزودہ یورینیم روس میں محفوظ مقام تک روانہ کرنے پر راضی ہو گیا تھا۔ اس طرح دنیا کے اہم لیڈر مشرق وسطیٰ میں جوہری عدم پھیلاؤ کے ایک اہم اندیشے کو مؤخر کرنے میں کامیاب ہو ئے تھے۔ یہ معاہدہ 2025 تک کے لئے کیا گیا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایران اس معاہدہ کے مطابق طے کئے گئے طریقہ کار پر چلتا رہے تو جوہری ہتھیار بنانے کے لئے اس کی کوششیں پندرہ سے بیس برس کے لئے مؤخر ہو جائیں گی۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں یہ معاہدہ ایران کو جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے مستقل طور سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ عالمی معاہدہ ایران کے میزائل پروگرام کا احاطہ نہیں کرتا اور نہ ہی مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں ایران کو ملوث ہونے سے روکتا ہے۔ چند ہفتے قبل انہوں نے فرانس کے صدر ایمینوئیل میکرون کے ذریعے ایران کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ اس معاہدہ پر نظر ثانی کی جائے اور امریکہ کے تحفظات دور کئے جائیں تو امریکہ ایران کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرے گا۔ تاہم ایران کے صدر حسن روحانی کا دو ٹوک جواب تھا کہ یہ معاہدہ چھ خود مختار ملکوں کے درمیان طے پایا ہے ۔ اس معاہدہ پر نظر ثانی کی کوئی تجویز قبول نہیں کی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر امریکہ ایک ذمہ دار ملک کے طور پر اپنے معاہدوں کی پا سداری میں ناکام رہتا ہے تو یہ ایران کا نہیں خود اس کا مسئلہ ہے۔ صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ امریکی صدر نے معاملات کو بہتر بنانے کی بجائے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے جنگ کے خطرات بڑھے ہیں اور غیر یقینی صورت حال میں شدید اضافہ ہؤا ہے۔ ٹرمپ چونکہ سنسنی خیزی پیدا کرنے کی شہرت رکھتے ہیں ، اس لئے وہ اس سے زیادہ سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ اسی لئے ایران کے ساتھ معاہدہ سے نکلتے ہوئے انہوں نے جو دعوے کئے ہیں ، پوری دنیا کے ماہرین اور لیڈر ان کو مسترد کرتے ہیں اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایران اس معاہدہ کے مطابق جوہری سرگرمیوں کو محدود رکھے ہوئے ہے۔

یہی وجہ ہے کہ برطانیہ ، فرانس اور جرمنی سمیت روس اور چین نے اس معاہدہ کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے بھی معاہدہ میں شامل باقی سب ملکوں سے اس اہم معاہدہ کو باقی رکھنے کی درخواست کی ہے۔ تاہم امریکی صدر کی جانب سے معاہدہ سے نکلنے کے بعد ایران پر پھر سے سخت پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کے بعد صورت حال غیر یقینی ہو چکی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائیں گے بلکہ ان تمام ملکوں پر بھی پابندیاں لگا سکتے ہیں جو ایران کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوں گے۔ اس اعلان پر عمل کرتے ہوئے اگر امریکہ نے ایسی کمپنیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا جو ایران کے ساتھ کاروبار کررہی ہیں تو دیکھنا ہو گا کہ یورپی ممالک کس حد تک اس امریکی دباؤ کی مزاحمت کرتے ہیں۔ اس نئی امریکی پالیسی کے نتیجہ میں مشرق وسطیٰ میں روس کا اثر و رسوخ بڑھے گا اور امریکہ کے لئے براہ راست تصادم کے اندیشوں میں اضافہ ہو گا۔ صدر اوباما کے دور میں ہونے والا ایران معاہدہ صدر جارج بش اور صدر باراک اوباما کی حکومتوں کے دور میں اخذ کئے گئے اس نتیجہ کا ثمر تھا کہ جنگ سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اب ٹرمپ یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ اپنے الفاظ کی بازی گری سے یہ کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali