دیوار برلن اور غزہ کی دیوارِ گریہ


برلن کے ادبی ادارے لٹریری ورکسٹاٹ کے سیمینار میں ایک مہمان اعزاز کے طور پر میں اپنی تقریر کا آغاز کر چکا ہوں کہ خواتین و حضرات برلن میرے لیے نیا نہیں اور نہ ہی برلن کے لیے میں اجنبی ہوں۔ 1958ء میں سوویت یونین سے واپسی پر میں مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کا مہمان تھا تب برلن کو تقسیم کرنے والی کوئی دیوار نہ تھی۔ ہم مشرقی جرمنی سے ٹرین میں سوار ہوتے اور بلا روک ٹوک مغربی برلن چلے آتے۔ پھر مشہور زمانہ دیوار برلن وجود میں آ گئی کوئی بھی آر پار نہ جا سکتا تھا اور گولی کا چلن عام تھا۔ بجا طور پر پوری آزاد دنیا نے اس ظلم کی دیوار کو ایک بربریت ٹھہرایا۔ اسے جمہوری اقدار اور آزادی کے لیے ایک چیلنج قرار دیا۔ انسانیت پر یہ کتنا ظلم ہے کہ لوگوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے۔ احتجاج احتجاج۔ یہاں تک کہ امریکی صدر جیک کینیڈی برلن آتا ہے اور دیوار کو پوری انسانیت کی توہین قرار دیتا ہے اور اسے گرا دینے کا مطالبہ کرتا ہے اور دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر جرمن زبان میں کہتا ہے کہ آج میں بھی برلن کا باسی ہوں۔

میں آپم کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آج کی دنئیا میں بھی ایک دیوار کھڑی کی گئی ہے۔ لوگ اس ظلم پر احتجاج کرنے کے لیے روزانہ جمع ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں صرف کنکر ہیں جو وہ اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں اور دانتوں تک مسلح اسرائیلی فوجیوں کی جانب پھینکتے ہیں اور ان کے نشانے باز انہیں چن چن کر مارتے ہیں۔ ان چند دنوں میں چالیس سے زیادہ نوجوان ہلاک ہو چکے ہیں اور ان کی ہلاکت کا کسی کو کچھ افسوس نہیں کہ سعودی کرائون پرنس جنہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اگلے چالیس برس بادشاہ مسلسل رہیں گے ان دنوں بہت مصروف ہیں اور اپنی سلطنت کو لبرل کرنے میں مشغول ہیں بلکہ ماشاء اللہ بادشاہت کے وفادار امام نے بھی کہا ہے کہ اسلام توازن کا مذہب ہے۔ ہلا گلا‘ کھیل تماشا عین اسلام ہے۔ بلکہ ایک سعودی شہزادی‘مملکت میں فیشن شوز اور ماڈلنگ وغیرہ کی ترویج کے لیے بے حجاب مصروف کار ہیں۔ تو مسلم امہ کے نگہبانوں کو کہاں اتنی فرصت کہ وہ محض چالیس فلسطینیوں کی ہلاکت کے لیے سوگوار ہوں۔ وہاں تو دما دم مست قلندر خلق خدا کے درمیان ہو رہا ہے۔ مکہ میں بے حجاب خواتین کی میراتھون ریس ہو رہی ہے گویا کہ وہ سانہوں نہر والے پل تے بلا کے‘ سعودی ماہی لبرل ہو گیا۔ پاکستان میں اس کے جتنے بھی ہم نوا تھے اور ہم نوائی کے بدلے میں وہ ڈالروں سے سرفراز ہوتے تھے وہ البتہ عجب مخمصے میں ہیں کہ سانہوں نہر والے پل تے بلا کے۔ غزہ کے گرد اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار ایک دیوار گریہ ہے اور اس سے لپٹ کر یہودی نہیں میں روتا ہوں۔ کہ میری بستیاں ویران ہو رہی ہیں۔ میرے زیتون کے باغ اجڑتے جاتے ہیں میں فریاد کرتا ہوں‘ میں فریاد کرتا ہوں۔

دیواریں کھڑی کرنے والے انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں۔ وہ دیوار غزہ کا محاصرہ کیے ہوئے۔ ایک ایسا مغربی طاقتوں کا پروردہ یزید ہے جو ان کے لاکھوں باشندوں کو پیاسا رکھتا ہے پانی نہیں پینے دیتا۔ فلسطینیوں کے مشکیزوں پر تیر برسا کر انہیں چھید ڈالتا ہے۔ مغربی دنیا کے موسیقار اور گلو کار اس کے سائے میں کانسرٹ کرتے ہیں اور ڈھا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں مشہور عالم گلو کار گروپ دیوار برلن کے پس منظر میں اپنی مشہور کمپوزیشن ’’دے وال‘‘ یعنی’’دیوار‘‘ پیش کرتے ہیں ان زمانوں میں یورپ اور امریکہ کے عوام نے اپنے اپنے شہروں میں اس دیوار کے حوالے سے جلوس نکالتے ہیں کہ اتنا بڑا ظلم آج تک روئے زمین پر نہیں ہوا اسے مسمار کر دو ڈھا دو کہ اس نے انسانوں کو قید کر رکھا ہے۔ انہیں ایک عقوبت خانے میں بند کر دیا ہے چنانچہ ان زمانوں میں ہر یورپی اور ہر امریکی کا ضمیر اسے کچوکے دیتا تھا کہ یہ دیوار شخصی آزادی‘ جمہوریت اور انسانیت کی سب سے بڑی تذلیل ہے۔ اسے ڈھا دینا چاہیے چنانچہ بالآخر ’’آزاد‘‘ دنیا جیت گئی کمیونزم سرنگوں ہوا اور دونوں جرمنی پھر سے ایک ہو گئے اور دیوار گرا دی گئی۔ اور پوری آزاد دنیا میں جشن منائے گئے تو خواتین و حضرات مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں نے برلن کو بغیر دیوار کے دیکھا۔ پھر دیوار کو دیکھا اور آج اسے پھر سے بغیر دیوار کے دیکھ رہا ہوں اور یہ میرے لیے انتہائی مسرت کا لمحہ ہے

مجھے یاد ہے ذرا ذرا کہ ہال میں کچھ تالیوں کی گونج نے جنم لیا تھا اور یہاں سے ایک ٹریجڈی شروع ہوئی تھی۔ ایک سناٹا چھا گیا تھا’’خواتین و حضرات میں تیسری دنیا کے ایک ملک پاکستان کا ایک معمولی ادیب ہوں آپ نے میری پذیرائی کی اور مجھے غیر معمولی کر دیا جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن مجھے ایک الجھن ہے ہماری دنیا کے ایک اور خطے میں آج دیوار برلن سے کہیں طویل اونچی اور سینکڑوں کلو میٹر تک آبادیوں‘ دیہات اور زیتون کے باغوں کو چیرتی ایک دیوار ہے اور وہاں بھی اسے پار کرنے کی کوشش کرنے والوں کو اور ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں بے دریغ ہلاک کر دیا جاتا ہے وہاں ایسے نشانہ باز ہیں جو لوگوں کو نہتے لوگوں کو چن چن کر بطخوں کی مانند مارتے ہیں تو میری الجھن یہی ہے کہ دیوار اگر مغرب میں تعمیر ہو تو وہ آزادی‘ جمہوریت اور انسانیت کے لیے ایک چیلنج ایک خطرہ ہوتی ہے اور اگر وہ مغرب سے باہر کسی خطے میں ہو تو نہ صرف اس کے وجود کا دفاع کیا جاتا ہے بلکہ اسے آزادی اور انسانیت کے دفاع کے لیے ضروری گردانا جاتا ہے۔ یوں بھی اس دیوار کا تذکرہ کم کم ہوتا ہے بلکہ بیشتر لوگوں کو اس کی خبر ہی نہیں تو بس مجھے یہی الجھن ہے کہ دیوار آپ کے ہاں تعمیر ہو تو وہ جمہوری اقدار اور انسانیت کے لیے ایک چیلنج ہوتی ہے اور وہاں وجود میں آئے تو جمہوری اقدار اور انسانیت کے دفاع کے لیے ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کا شکریہ کہ آپ نے مجھے آج اسی نشست پر بٹھایا جس پر پچھلے برس جرمن کے سب سے بڑے ناول نگار گنتھر گراس رونق افروز ہوئے تھے جن کے ناول’’ٹن ڈرم‘‘ کا میں بے حد مداح ہوں اور شکریہ کہ آپ نے میرے ایک معمولی سے ناول ’’راکھ‘‘ کو غیر معمولی پذیرائی دی۔ شکریہ۔

پوڈیم سے ہٹ کر جب میں واپس اپنی نشست پر بیٹھا تو ہال میں مکمل سناٹا تھا اس خاموشی نے مجھے تشویش میں مبتلا کیا۔ تقریب کے اختتام پر جب منتظمین ہمیں رات کے کھانے کے لیے ایک ہندوستانی ریستوران میں لے گئے تو لٹریٹر ورک سٹاٹ کی انچارج خاتون مجھے ایک الگ کونے میں لے گئیں اور کہنے لگیں’’تارڑ صاحب آپ نے آج شام اپنی تقریر میں جو کچھ کہا وہ نہ صرف آپ کے لیے بلکہ ہمارے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم گرفتار بھی ہو سکتے ہیں۔ شائد ہو جائیں کہ آپ نے اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف بات کی ہے اور جرمنی میں یہ ایک جرم ہے‘‘ میں شدید حیرت میں آ گیا کہ میں نے ایسا کچھ بھی نہ کہا تھا اور خاتون سے کہا کہ میں نے تو صرف ایک اور دیوار کی بات کی ہے وہ دیوار کہاں ہے کس ملک اور کس خطے میں ہے۔ کوئی نام نہیں لیا۔ ’’سب جانتے ہیں کہ آپ کس دیوار کا حوالہ دے رہے تھے اسرائیل کی تعمیر کردہ غزہ کے شہر کے گرد جو طویل اور بلند دیوار ہے آپ اس کی بات کر رہے تھے آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں امید کرتی ہوں کہ آپ کی تقریر کی رپورٹ اداروں تک نہ پہنچی ہو گی۔ ہم انتظار کریں گے‘‘ بہر طور میں برلن سے بخیریت نکل آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar