گولی سب پر چلے گی


خالد حسن، پرائم منسٹر بھٹو کے پہلے پریس سیکریٹری تھے۔ سنہ 2002 میں انہوں نے اپنی زندگی کی چار محبتوں پر اک کتاب تحریر کی اور اس کا ٹائٹل A Rearview Mirror رکھا۔ کتاب میں وہ پرائم منسٹر بھٹو کے ساتھ اپنی اک مختصر گفتگو کا ذکر کرتے ہیں جو اس موقع پر تھی جب 1974 میں تحریک نفاذِ نظامِ مصطفےٰ کی لاہور میں توڑ پھوڑ، گھیراؤ جلاؤ کے بعد ہونے والے تشدد میں ہونے والی قتل و غارت پر بھٹو مرحوم افسردہ تھے اور مذہبی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ میں آتے ہوئے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی پارلیمیانی قرارداد پر غوروفکر کر رہے تھے۔ خالد حسن لکھتے ہیں، اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی کئی نجی محفلوں میں بھی کیا، کہ پرائم منسٹر بھٹو کو ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا، مگر اس وقت تک واضح طور پر جسمانی اور ذہنی تھکن سے چُور، بھٹو اپنے تئیں اپنے لیے سیاسی مسائل کو کم کرنے کاسوچتے ہوئے، یہ فیصلہ کر چکے تھے، تاکہ وہ نسبتا سکون سے اپنی حکومت کو آگے چلا اور بڑھا سکیں۔

بھٹو نے جب مشورہ پر عمل نہ کیا تو خالد حسن نے کہا کہ مذہبی رہنما اور طبقات، مزید مطالبات لے کر آئیں گے، اور آپ کے لیے مزید مشکلات بھی پیدا کریں گے۔ بھٹو ان کی اس بات سے متفق نہ تھے۔ مگر مخالفین، مختلف مذہبی حوالہ جات اور فرمائشوں کے ساتھ بار بار آتے چلے گئے اور بالآخر اس تحریک کا حصہ بنے جس کا انجام پرائم منسٹر بھٹو کی جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں پھانسی پر ہوا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جنرل ضیاءالحق نے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے، جو اس وقت پاکستان کے اندرونی اور علاقائی حالات سے متصل تھے، پاکستان کے سماج اور سیاست میں مذہب کے کارڈ کو مسلسل استعمال کیے رکھا اور ایسے اقدامات سے بھی گریز نہ کیا جو پاکستان کی معاشرتی صحت اور توازن کے لیے مستقبل میں مستقل خطرہ بننے والے تھے۔ چونکہ جنرل موصوف کی اپنی قانونی حیثیت پر لگاتار سوالات کا اک سلسلہ تھا تو مذہب کی تقدیس کے مورچہ میں جا بیٹھے، اور پھر اپنے طیارہ کے پھٹنے تک اسی مورچہ میں براجمان رہے اور اپنے تمام ذاتی اور پیشہ وارانہ حوالہ جات اک پاکباز مؤمن کے طور پر تراش لیے۔ چونکہ انہوں نے اپنے بارے میں عوامی خیال بہت کامیابی سے مذہب کی تقدیس کے رنگ میں رنگا ہوا تھا، تو ان پر سوالات آہستہ آہستہ مرتے چلے گئے کیونکہ جنرل صاحب پر سوال جیسے مذہب پر سوال قرار پاتا۔

سنہ 1988 میں گیارہ سال کے جنرل ضیاء الحق کے دور کے بعد، اگلے گیارہ سال یعنی 1999 تک چار حکومتیں اک گھومتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئیں، اور اسی دروازے کے گھماؤ میں ہی نکال باہر کی گئیں۔ ان بےچاری سویلین حکومتوں کو اتنا وقت ہی نصیب نہ ہوا کہ وہ اپنی سیاست طاقت حاصل کرنے کے کھیل کے ساتھ ساتھ سماج کی حرکیات کے ساتھ بھی جوڑ کر آگے بڑھا سکیں اور ملک میں اک ایسی صحتمندانہ معاشرتی گفتگو کا سلسلہ شروع ہو سکے جو سیاسی ترقی کے ساتھ جڑی ہو تاکہ پاکستانی عوام کا سماجی مزاج، کہ جس کے بگاڑ کو پرائم منسٹر بھٹو نے شروع کیا، جنرل ضیاء نے پروان چڑھایا، کو کسی درست سمت میں ڈالا جا سکے۔

پھر 1999 میں جنرل پرویز مشرف آئے اور اپنے بارے میں اک ”روشن خیال شخص جو طبعا آمر نہیں“ کا تاثر بنانے کی کامیاب کوشش کی۔ سنہ 2002 کے عام انتخابات کروانے کے لیے انہوں نے جداگانہ طریقہء انتخاب کے بجائے مخلوط طریقہء انتخابات لانے کوشش کی جس کی تحت پاکستان کے احمدی ووٹرز مسلمانوں کو بھی ووٹ دے سکتے تھے، تو اسی سال جون میں اسلام آباد میں سرکاری طور پر منعقدہ، سالانہ قومی سیرت کانفرنس میں جمعیت علمائے پاکستان (نفاذِ شریعت گروپ) کے انجنیر سلیم اللہ نے جنرل صاحب کی توجہ اس جانب دلوائی اور اس کے ایک ہفتے کے اندر اندر جنرل صاحب نے 17 جون، 2002 کو چیف ایگزیکٹو آرڈر نمبر 15 جاری کیا اور پھر دوبارہ کبھی اس جانب رخ نہ کیا۔

زمانہء حال میں جاری اس تاریخ کا آغاز اکتوبر 2017 میں ہوا جب الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوتؐ کے حلف نامے کی عبارت میں تبدیلی کا معاملہ سامنے آیا۔ حکومت نے اس معاملہ پر صفائی دینے کی نیم دلانہ سی کوششیں کیں، جو تسلیم نہ کی گئیں۔ سچ مگر یہ ہے کہ اس معاملہ کے اٹھنے سے ٹھیک ایک سال قبل نومبر 2016 میں حکومتی جماعت کے اک نہایت ہی پرانے سینیٹر، جناب ساجد میر صاحب نے اس وقت پاکستان کے آرمی چیف بننے کے امیدواران میں سے ایک پر ممکنہ طور پر ختمِ نبوتؐ کا عقیدہ نہ رکھنے کا ”الزام“ لگایا، اور اسی الزام کی بازگشت اکتوبر 2017 کے اوائل میں پاکستانی پارلیمان میں بھی گونجی جب سابق وزیراعظم، میاں نواز شریف صاحب کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے فوج میں بھرتی کے لیے احمدیوں پر پابندی کا مطالبہ کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ احمدی فوجی افسران پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

پھر سیاسی حکومت کو اس کی سزا، جناب مولانا خادم حسین رضوی صاحب کے تین ہفتے طویل دھرنے کی صورت میں بھگتنا پڑی اور اس میں بالخصوص اک پاکستانی الیکٹرانک میڈیا چینل نے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے، حکومتِ وقت کو ختم نبوتؐ کا حلف نامہ تبدیل کرنے کا مجرم قرار دیا اور اک فضا بنائی گئی جو حکومت اور اس کے اکابرین کے خلاف اک لہر کی صورت میں اٹھی۔ اس وقت کے وفاقی وزیرِ قانون، جناب حامد زاہد صاحب مستعفی ہوئے اور پاکستان کی عمومی معاشرت میں اسی بحث کا آغاز ہو نکلا، جو سنہ 1974 میں بھٹو مرحوم کی حکومت کے دوران موجود تھا۔

اس بلند ہوتی ہوئی لہر کے بہت سے منطقی انجاموں میں سے اک کا عکس 6 مئی کو وفاقی وزیرِ داخلہ، جناب احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی صورت میں دیکھا گیا اور پکڑے جانے والے مجرم نے اپنا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے بتایا۔

پاکستانی سیاسی جماعتوں کو اس معاملہ پر اک گہرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ان کی سیاست صرف طاقت کے حصول تک ہی محدود رہنی چاہیے یا انہیں اپنی سیاست اور پھر اس کے ذریعہ حاصل ہونے والی ریاستی طاقت کو ایسے موضوعات پر اک ہمہ جہت معاشرتی گفتگو شروع کرنے کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے جو مذہب سے جڑے موضوعات کی لٹکتی ہوئی کئی تلواروں کو اک ارتقائی طریقہ سے کُند کر سکے؟

اس معاملہ کا تدارک نہ ہوا تو جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی کی گئی نفرت کی گولی سب پر چلے گی کہ تشدد کے اندھے پن کی نفرت کسی دلیل کو تسلیم نہیں کرتی۔ یاد رہے کہ اک سلمان تاثیر تھے، انہیں بھی درجن بھر گولیاں لگنے سے قبل اپنے محافظ پر مکمل یقین تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).