کہنے والے کا مقام


”مجھے واقعی سمجھ نہیں آتا کہ تم میں ایسا کیا ہے جو مجھ میں نہیں۔ ہیلو؟ ایکسکیوز می! تم سے بات کر رہی ہوں۔ بندہ جواب ہی دے دیتا ہے ایسا کیا ایٹی ٹیوڈ۔ “
”ہاں بالکل! بندہ جواب دیتا ہے مگر دوسرے کی بھی کوئی اہمیت ہونی چاہیے۔ تمہیں منہ کون لگاتا ہے؟ “
” یہی تو میں پوچھ رہی ہوں تمہاری اہمیت ہی کیوں؟ جو تم ہو وہی میں ہوں۔ پھر فرق کیوں؟ “

”جگہ جگہ کا فرق ہے میڈم! تم وہاں نہیں ہو جہاں میں ہوں۔ “
” اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا اس سے میرا کہا ہوا غیر اہم ہو جانا چاہیے؟ وہی بات میں کہہ کہہ کر تھک جاتی ہوں مگر جب تم ایک بار بھی کہہ دو تو ملک میں ہنگامہ مچ جاتا ہے۔ ہر بندہ سمجھتا ہے یہ نئی بات ہے اس سے پہلے تو پتا ہی نہیں تھی۔ ۔ ۔ افوہ اب صرف کندھے اچکا دینے کا کیا مطلب جواب بھی تو دے سکتی ہو مجھے”۔

” وجہ؟ جب تم خود مان رہی ہو کہ تمہاری بات پہ کوئی دھیان نہیں دیتا تو میں کیوں دوں؟ اور تم کیوں جل رہی ہوں اگر لوگ تم سے زیادہ مجھے اہمیت دیتے ہیں؟ “
”جل نہیں رہی افسوس ہو رہا ہے۔ میں کتنی بھی اہم بات بتا دوں وہ ایسے درگزر کر دی جاتی ہے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ تم نے زینب کے بارے میں بتایا تھا لوگ سمجھے جیسے یہ کوئی پہلا واقعہ ہو“

”ہاں تو؟ کتنا افسوس ناک واقعہ تھا عوام کا ردعمل تو ہونا چاہیے تھا نا۔ تمہیں افسوس نہیں ہوا؟ کتنی شرم کی بات ہے۔ مجھے تو اب رات کو سکون سے نیند بھی نہیں آتی۔ “

”بی بی تمہارے اترا کے کہہ دینے سے میں یقین کرلوں گی کیا؟ راتوں کو جاگنے والوں کے چہرے ایسے نہیں چمکتے۔ اور اس کا کیا میں جو روز کئی بچوں کے بارے میں چیخ چیخ کے بتاتی ہوں وہ تو کوئی نہیں سنتا۔ دیکھو ادھر میری طرف! سچ بتاؤ وہ بچہ یاد نہیں آتا جس کی نیم برہنہ لاش کو جانور آدھا بھنبھوڑ چکے تھے۔ کسی نے پوچھا اس کا قاتل کہاں ہے؟ بتایا تھا نا میں نے وہ بھی۔ “

”اے لسن۔ تمیز سے اچھا! یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا، اتنا غصہ کسے دکھا رہی ہو؟ اور یہ جھوٹے آنسو دکھا کر ڈرامہ مت کرو۔ “

”غصہ دکھا نہیں رہی مجھے واقعی شدید غصہ آرہا ہے۔ تم ایک بار بتا دو کہ کسی غیر مسلم نے قرآن کی بے حرمتی کی ملک جل اٹھتا ہے۔ میں بتاوں کہ مسلمانوں نے بھی ٹرک کے ٹرک قرآن جلائے، کسی کو پروا نہیں ہوتی۔ تم کہو فلاں نے اٹھنی کی کرپشن کی لوگ جلسے نکالنے پہ تل جاتے ہیں میں کہوں ملک لوٹ کے کھا گئے تو کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ قسم خدا کی، میں جل نہیں رہی مجھے افسوس ہورہا ہے عوام کی بے حسی اور دہرے معیار پہ۔ “

” کرتی رہو افسوس تمہارے افسوس کرنے سے کوئی فرق پڑے گا؟ چاہے سچائی وہی ہو جو تم بتاؤ تمہاری نہ کبھی کسی نے سنی ہے نہ سنے گا۔ کیونکہ میں فرنٹ پیج کی خبر ہوں اور تم اندرونی صفحوں کی غیر اہم خبر۔ “

مصنفہ کا تعارف
ابصار فاطمہ پیشے کے اعتبار سے ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کے شہر سکھر سے ہے۔ نفسیاتی اور معاشرتی مسائل پہ آرٹیکلز اور کہانیاں لکھتی ہیں۔ ”ینگ ویمن رائٹرز فورم اسلام آباد چیپٹر“ کی کمیٹی اورگنائزر ہیں۔ سوشل میڈیا پہ سائنس کی اردو میں ترویج کے سب سے بڑے پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سےبھی منسلک ہیں۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima