کشمیر: پتھر پھینکنے والے بندوق کیوں اٹھا رہے ہیں


بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پیر کے روز سڑکوں پر ہونے والے پتھراؤ کے دوران چنئی شہر کے ایک سیاح کی موت اور ایک مقامی لڑکے کے زخمی ہونے کا واقعہ چونکا دینے والا تھا۔ جس کی تنقید سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی سے لےکر حریت تک نے کی۔ سبھی نے اسے کشمیر کی مہمان نوازی کی روایات کے خلاف کہا۔

زیادہ تر معاملات میں مقامی لوگ یا سیاح پتھر بازوں کے نشانے پر نہیں ہوتے تھے۔

اس واقعہ سے کشمیر میں سیاحت پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے جو پہلے سے ہی شورش کے سبب متاثر ہو رہا ہے۔

کشمیر

2016 کے بعد سے کشمیر میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے

کشمیر کے موجودہ حالات کے سبب عام زندگی کے ساتھ ساتھ تعلیم ، صحت یہاں تک کے لوگوں کی سکیورٹی بھی خطرے میں ہے۔

اور سکول کالج کے طالب علموں کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے پتھر ہیں اور اب لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی مظاہروں میں شامل ہو رہی ہیں۔ان بچوں کو معلوم ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

2016 کے بعد سے کشمیر میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔جیسے ہی کسی گاؤں کے لوگوں کو یہ خبر ملتی ہے کہ ان کے ہمسایہ گاؤں میں مسلح فوجی شدت پسندوں کو مارنے پہنچے ہیں وہ نہتے ہی انہیں بچانے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔

کچھ نوجوان اب پتھر بازوں سے بندوق باز بن رہے ہیں اور اب کچھ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل نوجوان بھی علیحدگی پسندوں سے وابستہ ہو رہے ہیں۔

کشمیر

چھ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل نوجوان بھی علیحدگی پسندوں سے وابستہ ہو رہے ہیں۔

اس طرح کے لوگوں کی تعداد اب تیزی سے بڑھ رہی ہے اور انکاؤنٹر میں مارے جانے والوں کی تعداد میں بھی دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں سڑکوں پر مظاہرے شورش کی علامت بن چکے ہیں جس میں کشمیری نوجوان پتھر ہاتھوں میں لیکر مسلح فوجیوں سے لڑنے کو تیار ہوتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان فوجیوں کا رویہ ظالمانہ ہوگا۔

فوجی کارروائیوں کے ضابطوں کی بھی کھلے عام خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

کشمیر

حالیہ دنوں میں سڑکوں پر مظاہرے شورش کی علامت بن چکے ہیں

پتھر پھینکنا کوئی بیماری نہیں ہے اور یہ بھی طے ہے کہ یہ نوجوان کسی فائدے کے لیے خود کو موت کے منھ میں نہیں دھکیل رہے۔جیسا کہ حکام اس بات کا دعوی کرتے آئے ہیں۔

آخر یہ حالات پیدا ہی کیوں ہوئے۔لوگوں کا غصہ سڑکوں پر آنے کی وجہ سیاسی خواہشات پوری نہ ہونا اور تنازعے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ فوجی کارروائی میں اضافہ، انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور پر امن مظاہروں کو روکنے کی کوششوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

مسلسل پر تشدد واقعات کشمیری نوجوان کو بے قابو کر رہے ہیں وہ اکثر مظالم کا شکار ہوتے ہیں جن کے بارے میں قومی سطح پر بات ہی نہیں ہوتی۔

اس سلسلے کو تبھی ختم کیا جا سکتا ہے جب بنیادی وجوہات پر بات ہو۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکزی حکومت فوجی کارروائی سے مخالفت کو کچلنے کی امید کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی تاکہ ان کے ساتھ بات چیت کر کے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

آج جو حالات ہیں ایسے ناامید صورتِ بلبلے میں پھنستے جا رہے ہیں اور بغیر کسی متبادل کے غائب ہو رہے ہیں۔

کئی تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان لکھ کر ، پینٹنگز کے ذریعے اور بات چیت سے مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں اور حکومت کو اس بارے میں سوچنا چاہئیے اور کشمیر کے بارہ کے لوگوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئیے کہ کشمیری نوجوان یہاں تک کیسے پہنچے اور اس بارے میں رائے عامہ بنانی چاہئیے تاکہ حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو کشمیر میں یہ سب چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp