کیا وزیرستان ایک بار پھر شدت پسندی کی راہ پر؟


پاکستان

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے سکولوں کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان واقعات کے بعد علاقے میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو گئی ہے۔

پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد پہلی مرتبہ لڑکیوں کے دو سکولوں کو بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ ایک غیر معروف تنظیم کی طرف ایک پمفلٹ جاری کیا گیا جس میں لڑکیوں کے ہائی سکولوں کو بند کرنے کا کہا گیا ہے۔

ان حالیہ واقعات نے علاقے میں ہونے والی فوجی کاروائیوں پر سوالیہ نشانہ لگا دیا ہے۔

مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے بڑے تجارتی مرکز میرعلی تحصیل کے علاقے ہسوخیل میں بدھ کی شب نامعلوم افراد کی جانب سے لڑکیوں کے ایک مڈل سکول کو بارودی مواد سے نشانہ بنایا گیا جس سے سکول کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا ہے۔

اس بارے میں جاننے کے لیے مزید پڑھیے

‘یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی وزیرستان ہے’

رقم کی ادائیگی میں تاخیر، فاٹا متاثرین کا احتجاج

متاثرین کی واپسی کا چوتھا مرحلہ شروع

قبائلی علاقوں کے پناہ گزین واپسی کے منتظر

انہوں نے کہا کہ اس سے تین دن قبل اسی تحصیل میں لڑکوں کے ایک اور مڈل سکول کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا جس سے سکول کی عمارت کو جزوی طورپر نقصان پہنچا تھا۔

ان صحافیوں کے مطابق دونوں واقعات رات کی تاریکی میں پیش آئے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ کس کا کام ہوسکتا ہے تاہم ابھی تک کسی تنظیم کی جانب سے ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔

دریں اثنا’اتحاد مجاہدین شمالی وزیرستان’ نامی ایک غیر معروف تنظیم کی طرف سے ایک پمفلٹ جاری کیا گیا ہے جس میں ہائی سکول جانے والی لڑکیوں کو سکولوں میں بھیجنے سے منع کیا گیا ہے۔

ایک سادہ کاغذ پر ہاتھ سے تحریرکردہ اس پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ پمفلٹ علاقے کے مختلف مڈل سکولوں کو بھیجا گیا ہے جس سے علاقے میں ایک مرتبہ پھر خوف کی کفیت پیدا ہورہی ہے۔

تاہم بیشتر مقامی اخبارنوسیوں کا کہنا ہے کہ یہ پمفلٹ ہاتھ سے ایک سادہ کاغذ پر لکھا گیا ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ یہ کسی کی شرارت ہوسکتی ہے جس کا مقصد علاقے میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے جس میں قبائلی سردار اور عام شہری مارے گئے ہیں۔

پاکستان

پاکستانی فوج حکام نے آپریشن ضرب عضب کے بعد دعوی کیا تھا کہ قبائلی علاقہ جات سے تمام شدت پسند تنظیموں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے

شمالی وزیرستان کے ایک صحافی احسان داوڑ کا کہنا ہے کہ علاقے کے عوام نے امن کے قیام کےلیے کئی قسم کی جانی و مالی قربانیاں دی ہیں اور ایسے میں اس قسم کے واقعات کا دوبارہ شروع ہونا یقینی طورپر سب کےلیے تشویش کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک مقامی انتظامیہ کی طرف سے ان واقعات پر کسی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

احسان داوڑ کے مطابق اپریل کے مہینے میں ٹارگٹ کلنگ کے پانچ واقعات رونما ہوئے جس میں ایک واقعہ میں شادی کی ایک تقریب میں موسیقی کے پروگرام کو نشانہ بنایا گیا جس میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ دیگر واقعات میں قبائلی مشران کو نشانہ بنایا گیا۔

اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ کا موقف معلوم کرنے کےلیے ان سے بار بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ہوسکی۔

خیال رہے کہ تقریباً چار سال قبل ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کےلیے شمالی وزیرستان سے فوجی آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ بعد میں ان کاروائیوں کا دائرہ پورے ملک تک بڑھایا گیا تھا۔

پاکستان

گذشتہ سال پاکستان کے کرکٹرز اور انگلینڈ کے صحافیوں پر مبنی ٹیم نے شمالی وزیرستان میں یونس خان سٹیڈیم میں ٹی ٹوئنٹی میچ میں شرکت کی تھی

فوجی حکام کے مطابق اس آپریشن کے نتیجے میں وزیرستان میں موجود دنیا بھر کی جہادی تنظیموں اور شدت پسندوں کا خاتمہ کیا گیا۔

اس آپریشن کے دوران تقریباً دس لاکھ کے قریب افراد بےگھر ہوکر پناہ گزین کیمپوں یا کرائے کے مکانات میں مقیم ہوگئے تھے لیکن حکام کے مطابق حالیہ وقتوں میں تمام بے گھر افراد اپنے اپنے علاقوں کو واپس جاچکے ہیں۔

اس آپریشن کی کامیابی کی ملک بھر کے تمام ذررائع ابلاغ پر وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی اور اس دوران غیر ملکی سفیروں اور کئی اہم امریکی اہلکاروں کو بھی شمالی وزیرستان کے دورے کرائے گئے لیکن حالیہ واقعات نے ان کاروائیوں پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشانہ لگا دیا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ واقعات ایسے وقت بڑھ رہے ہیں جب فاٹا اور خیبر پختونخوا کے نوجوانوں پر مشتمل تنظیم پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کی طرف سے ملک بھر میں جلسے جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اپنے حالیہ جلسوں میں شمالی وزیرستان میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر بار بار تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp