داستان ضمیر فروشوں کی


صحافیوں اور قلمکاروں کے نام پر قلم اور ضمیر فروشوں کی فصل کا ہر دور میں اگنا اور بکنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، مگر اس فصل کی آبیاری کرنے والوں کی ہمت اور دیدہ دلیری پر حیرت ہے کہ بار بار بگیا لہو لہان ہونے کے باوجود ہر دور میں ایسی فصل کی ایک کھیپ تیار ملتی ہے۔ ایسے قلم فروشوں اور ضمیر کے سوداگروں کی قیمتیں بیت المال اور قومی خزانے سے چکانا اور ان کی خرافات کو ایمان کا درجہ دینا اور اس پر یقین کو ایمان کی تکمیل سے منسلک کرنا ہر دور کی قومی حکمت عملی رہی ہے۔ ہر دور میں راست گو مفکرین، حق پرست قلمکاروں اور با ضمیر صحافیوں کو غدار، ملک دشمن اور ملحد ثابت کرنی کو کوششں بھی کبھی کم نہیں ہوئی۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ ایسے حق پرستوں اور انصاف پسندوں کے خلاف جبر و استبداد سے بھری پڑی ہے۔ لاہور کے شاہی قلعے سے اٹک تک اور کراچی کے عقوبت خانوں سے گلگت اور مچھ کے زندانوں تک اب بھی ان کی چیخیں رات کے سناٹےمیں سنائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف ضمیر فروش اور قلم کے سوداگر ہر دور میں مسند اقتدار کے آس پاس منڈلاتے رہے اور دام وصول کرتے رہے۔

جب قلم فروشں ایوبی آمریت کو ملک کا سنہرا دور قرار دیتے او ر تاریخ کی سب سے کم سطح پر مجموعی قومی پیداوار کے باوجود اس دور کی ترقی کو تاریخی قرار دیتے ہیں تو تعجب نہیں ہوتا لیکن اہل خرد انگشت بدندان آج بھی ہوتے ہیں جب یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ 1965ء کی جنگ میں اونٹوں پر سوار سبز جامے میں ملبوس آسمانی مخلوق بی آر بی کی نہر کے کنارے دشمن کے ٹینکوں کے خلاف تلواروں سے لڑ رہی تھی۔ تعجب ان الفاط کے کہنے والوں سے زیادہ اس تیقن پر ہوتا ہے جو ہمارے نام نہاد پڑھے لکھے ایسی باتوں پر رکھتے ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے والے دانشوروں کو بنگال کا سیلاب اور قحط نہ اس وقت نظر آیا تھا اور نہ آج آتا ہے۔ ایوب کے دربار سے فیض پانے والوں نے اپنی نسلوں کو بھی امریکہ کے پاس گروی رکھنے کے بعد لکھا’ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ‘اور ان کی اگلی نسل نے مشرف کے ہاتھوں سب کچھ بیچنے کے کے بعد لکھا  ًسب سے پہلے پاکستانً۔ تعجب قلم فروشوں پر نہیں جن کا پیشہ کاسہ لیسی ہے تعجب اہل یقین پر ہے جو آج بھی جلسوں میں ایوب کے گوہری قصے سنا کر مجمع سے داد لیتے ہیں اور لوگوں سے ووٹ۔

ضیا ء الحق کو مرد مومن اور مرد حق کا خطاب دینے کے بعد ان کے حسب نسب کو غزنوی اور غوری سے ملانے والوں نے بھی ایسے بڑے قصے گڑھے جن میں کوہ قاف کے جنات نے افغانستان کو کھنڈرات میں بدلنے میں عربوں اور مصریوں کی مدد کی تھی۔ ایسی داستانوں اور لوریوں کو سنا سنا کرمعصوم ماؤں نے اپنے جوان بچوں کو افغانستان کی جنگ کا ایندھن بنا دیا جبکہ اس جنگ سے امریکی ڈالر کمانے والے ملاؤں اور جنرلوں کے بچے امریکہ میں تعلیم حاصل کرکے آج دوسری جنگ کے سرخیل بن بیٹھے ہیں۔ یقین کرنے والوں نے نہ اس وقت یہ سوال پوچھا تھا کہ امریکی ڈالروں کے لئے لڑی جانے والی جہاد کیسے ہے اور نہ آج پوچھ رہے ہیں کہ اپنے لوگوں کو بموں سے اڑانے کی جنگ جہاد کیونکر ہو سکتی ہے۔ لکھنے والوں کے قلم کو شہ دینے والا اندھا یقین ہی ہے جس نے قلم فروشوں کی قیمت کوہر دور میں بڑھا وا دیا ہے وگرنہ ان کے جھوٹ اور کھسوٹ کو حبیب جالب نے اس شعر میں سمو دیا تھا۔

اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

 کھلے جھوٹ اور ذہن کی لوٹ کا بازار کبھی بند نہ ہوا۔ 1988ء کے ہوائی حادثے کے بعد ملک کو جمہوریت کی راہ ڈالا گیا تو دروغ گوئی کی صنعت نے پرو پگنڈہ کی شکل اختیا ر کی اور ایک منظم انداز میں عوامی اداروں کے خلاف افواہ سازی کی مہم کو فروغ دیا ۔ اب ضیاء الحق کے دور میں لگائے مکر و فریب کے پودے تناور درخت بن چکے تھے اور ان کے پھل سے نوجوان نسلوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا پورا بندوبست موجود تھا۔ قلم فروشوں اور ضمیر کے سودا گروں سے جو کچھ ممکن نہیں ہوسکا اس کو ضیاءالحق کے سیاسی وارثوں نے پورا کیا ۔ ضیاء آمریت کے خلاف لڑنے والی نہتی لڑکی کے خلاف پروپگنڈہ کی مہم میں جہازوں سے پمفلٹ گرانا اور سچی جھوٹی کہانیاں گڑھنا اور اسمبلی کے اندر اور باہر کرائے کے بھانڈوں سے تضحیک کرواکر دل نہ بھرا تو گھٹیا قماش کے صحافیوں کی خدمات مستعار لی گئیں ۔

کمال تو آج کے دور میں ہورہا ہے جو ایسی بے سرو پا خبروں پر ملک کے آئینی ادارے حرکت میں آجاتے ہیں، اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں وقت برباد کرتے ہیں اور آخر میں کچھ نہیں ملتا ہے تو لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ ایک خبر پر 35 پنکچر لگانے والوں کا سراغ لگانے کے لئے پہلے کئی مہینوں تک اسلام آباد کا شہر محصور رہا، پھر ایک کمیشن میں مقدمہ چلا، تمام ووٹوں کا آڈٹ ہوا کچھ نہ ملا تو ایک حلقے میں دوبارہ الیکشن ہوئے وہاں سے بھی صفر جمع صفر کا حاصل صفر نکلا تو ملک کی سب سے بڑی عدالت پر ہی الزام لگا کہ یہ سب کیا دھرا اسی کا ہے۔ عدالت نے جواب نہ دیا تو اب الزامات کی توپوں کا رخ ملک کے سب سے با اختیار اور طاقتور کہلانے والے ادارے کی طرف ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ سب جھوٹ کا دھندہ ہے مگر اس کو سچ مان کر ہم سب جھوٹ کے کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں۔

ابھی 35 پنکچروں والی کہانی ختم ہی ہوئی تھی کہ 37 بنک اکاؤنٹ کی کہانی سامنے آئی۔ کہنے والے کی اصلیت سے سب ہی واقف تھے اور ایسا پہلی بار بھی نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہنے والے نے ایک معزز شخص کو قاتل بھی ٹھہرایا تھا اور کسی قابل عزت جگہ کے بارے میں کہا تھا کہ وہاں سے خانہ جنگی کی تیاری ہو رہی ہے مگر ثابت کرنے کی نوبت اس لئے نہیں آئی کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ ایسی باتیں توجہ حاصل کرنے کے لئے کر رہا ہے۔ تعجب اس بات ہے کہ ایسی بات پر اس قدر سنجیدگی سے دھیان دیا گیا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اپنا وقت ضائع کرکے اس بات کی تحقیقات کی، ملک کے اداروں کی توانائیاں اس بات کی تحقیقا ت کے لئے صرف کی گئیں۔ جب سب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا تو بھی اس سنجیدگی سے باز پرس نہیں ہوئی جس سنجیدگی سے نوٹس لیا گیا تھا۔

احتساب کے سب سے بڑے ادارے نے تو حد کر دی جو ایک پرانی بے پر کی کہانی پر بغیر تحقیق کئے ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص پر الزام دھرا۔ جب ورلڈ بنک کی یہ فرضی رپورٹ شائع ہوئی تو اس وقت یہ بات صاف ہوگئی تھی کہ مہاجرت اور انتقال زر پر ایک طریقہ تحقیق کے لئے بنک نے اعداد و شمار فرضی لئے ہیں ۔ بنک نے وضاحت کی تھی کہ مہاجرت کے اعداد و شمار 1947 کی ہجرت کے ہیں جن پر طریقہ تحقیق کا مفروضہ اس لئے غلط ثابت ہوا کہ ہجرت کرنے والے واپس جانے کے لئے نہیں آئے تھے۔ مگر اس فرضی بات کو جھوٹ اور پروپگنڈے کی مشین میں ایسے ڈالا گیا کہ نواز شریف کے موودی اور ہندوستان میں دیگر روابط کے ساتھ جوڑ کر جگ ہنسائی کا پورا سامان کیا گیا۔ ابھی اس لطیفے پر لوگ ہنس ہی رہے تھے کہ احتساب عدالت نے اس پر کارروائی کرنے کا اعلان کر کے حد ہی کر دی۔

اس سے پہلے ایسی خبروں پر اس سے پہلے ملالہ اربوں ڈالرکی مالک بن چکی ہیں اور ڈاکٹر عاصم نے بھی چار سو ارب روپے کی کرپشن کی ہے جس پر نوے روز تک زیر تفتیش بھی رہے ہیں۔ اسی طرح کے مفروضے پر ایک سابق محتسب نے پاکستان میں روزانہ کرپشن کو اربوں میں بتایا ہے اور لانچیں بھر بھر کر ڈالر اور سونا دبئی بھی لے جایا گیا ہے۔ ایک لڑکی آیان علی کے قصے تو عدالتوں اور ٹی وی پروگراموں کے علاوہ اب درسی کتابوں میں بھی چھپنے والے ہیں۔

حقائق صرف امراء اور اشرافیہ کے پیسے کی ریل پیل تک محدود نہیں حقیقت اس سےآگے بھی ہے۔ آج بھی ملک میں سچ لکھنا جرم ہے اور سچ لکھنے کی پاداش میں لوگ اپنے گھروں سے اٹھائے جاتے ہیں۔ آج بھی ملک کی آدھی آبادی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے ۔ آج بھی یہاں لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر تعصب کا سامنا ہے اور ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے ۔ انتہا پسندی اس عروج کو پہنچی ہے کہ سب کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار وفاقی وزیر داخلہ کو کھلے عام گولیاں ماری گئی ہیں۔ لوگ کنٹینر، جہاز، لانچیں بھر بھر کر ملک سے فرار ہورہے ہیں اور دیار غیر میں سمندر کی مچھلیوں کا خوراک بن رہے ہیں تو کہیں جنگلوں میں بھٹک بھٹک کر مر رہے ہیں، بردوہ فروشی نے ایک نئی شکل اختیار کی ہے اب قیمت چکائے بغیر لوگوں کو بے دام بیچا جاتا ہے۔  حضور! یہ سب خبریں بھی چھپتی ہیں، ایک نظر ادھر بھی۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan