چچا سام کا نیا جال


کیا قرب قیامت کی نشانیاں ہیں۔ 1979میں امریکیوں نے افغانستان میں لڑنےکے لئےکروڑوں، اربوں ڈالر دیئے ہمارے ملک ہماری سرزمین پر چیچنیا سے لے کر سارے مسلمان ممالک سے جنگجو بلائے ان کو خودکش جیکٹ بنانے سے لے کر، خودکش دھماکے کرنے اور بم بنانے کی تربیت دینے کے علاوہ، باقاعدہ وزیرستان کے علاقوں میں آباد کیا۔ دو نسلوں کی اس تباہی کے لئے تیاری کروائی، بعد میں جب خود امریکی فوجیں افغانستان میں اتریں تو انہیں بھی جب خودکش حملہ کرنے والوں نے نشانہ بنانا شروع کیا تو چڑھ دئیے پاکستان پر۔

اب جبکہ اس جنگ و جدل میں ہمارے پیارے فوجی کوئی چھ ہزار کے قریب مارے جاچکے تھے ایف آر بنوں سے لے کر فاٹا کے بیشتر لوگ بے گھر ہوچکے تھے۔ 30 لاکھ افغانیوں کو بھی ہماری غریب حکومت روٹی کھلارہی تھی۔ امریکیوں کو تو پہلے 9/11 کے بعد، طالبان اور اسامہ کا ہوکا ہوگیا۔اب بلبلا اٹھے، کبھی پاکستان کو چمکارا، کبھی دھتکارا، کبھی ڈانٹ ڈپٹ اور کبھی دھمکیاں “Do more”۔

ہم بھی بڑے ڈھیٹ ہیں ایک طرف کبھی اندر کے زخم چاٹتے اور کبھی امریکی کچوکوں کا جواب دیتے۔ روز امریکی ہرکارے آتے دہی اتے کالارا “Do more” ٹرمپ صاحب نے تو خود ہی ٹوئٹر استعمال کرکے، بروں کو اچھا اور اچھوں کو برا کہنا شروع کردیا‘ بالکل شہزادہ سلمان کی طرح کہ یہودیوں کو بھی فلسطینیوں کی طرح اپنا وطن چاہئے۔

اگر تم فلسطینیوں کو ملک دلادوگے تو پھر ہم بھی تمہاری طرح چھپ کر نہیں، کھل کر اسرائیل سے بات کریں گے۔ اب 2018ء میں امریکہ کا نیا دروازہ کھلتا ہے۔ لمبے چوڑے اشتہار اور میڈیا پر مسلسل خبریں۔ امریکہ پاکستان کی این جی اوز کو کروڑوں ڈالر کی امداد دے گا۔ووٹ کے تقدس کو سمجھانے، معاشرے کو روشن خیال بنانے اور بچوں کی تعلیم کے علاوہ عورتوں کو تعلیمی اور معاشی بحالی کے منصوبوں کے لئے۔

رہا این جی اوز کا مسئلہ تو، جب تک وزارت داخلہ کسی این جی او کو، سب کچھ ٹھیک ہے کا سرٹیفکیٹ نہیں دیگی۔ وہ کام نہیں کرسکے گی۔یہ مت پوچھیں کہ اب کون آگے بڑھ کر خود کو سول سوسائٹی یا پھر دانشور کہے گا۔سعودی عرب میں بالخصوص خواتین کو دی جانے والی شخصی آزادیوں کو، لبیک کہنے والے طعنہ زن ہوسکتے ہیں۔ این جی اوز کو گالی دینے والے پہلے ہی کم نہیں۔ پیٹرول پمپ الاٹ کروانے والے بہت ہیں۔

تو پھر ان لوگوں کو ممبرپارلیمنٹ کے لئے امیدوار منتخب کیا جائے جو ذاتی اور اجتماعی کوششوں سے اسپتال چلارہے ہیں۔ اسکول اور یونیورسٹیاں قائم کررہے ہیں۔ اپنے اپنے علاقے میں، صاف پانی کی مہم چلارہے ہیں۔ جو لوگ غریبوں کی بچیوں کے لئے جہیز اور شادی کا اہتمام کررہے ہیں۔ خود سے پوچھیں، اوکاڑہ کے مزارعوں کے لیے کون لڑتا رہا۔

یہ سوال بھی کریں کہ تھر میں غربت کے خاتمے کے لیے کون کام کررہا ہے۔ جنوبی پنجاب میں سیاست کھیلنے والے اور ہیں اور عائشہ صدیقہ کی طرح مسائل کی نشاندہی کرنے والے کم۔ فاٹا کے نوجوانوں جس میں خواتین بھی شامل ہیں کو سامنے لایا جائے۔ وہ لوگ جو گزشتہ بیس برس سے مسلسل پارلیمنٹ آتے رہے، فیض اٹھاتے رہے، نہ کبھی بولے، نہ کوئی کام کیا۔ بس دوسروں کو کہتے رہے کہ ذرا میری بھی حاضری لگا دینا۔ ٹی اے ڈی اے مل جائے گا ۔ ان لوگوں کو بھی ٹکٹ نہ دئیے جائیں جو مسلسل خواتین کے ووٹ ڈالنے کی مخالفت کرتے رہے۔

جو ساری عمر ٹیکس چوری کرتے رہے۔ جو پاکستان کے بڑے اداروں کے بورڈ کے ممبربن کر سہولتوں سے فائدہ تو اٹھاتے رہے، مجال ہے کہ ایک بھی مثبت قدم اٹھایا ہو کہ ادارے کو قرضوں سے نجات ملے۔ اب برسات کے مینڈکوں کو تو قطعی ٹکٹ نہ دیے جائیں۔ ان کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں کہ کس کس گھاٹ کا پانی پیتے رہے ہیں۔
سب سے بڑھ کر جو لوگ علاقے کے ہمسایہ ممالک سے بجائے کشیدگی پیدا کرنے کے، کسی روسی یا امریکی کانا پھوسی کی شہ پاکر دنیا کے امن کو برباد کرنے کے منصوبے نہ رکھتے ہوں وہ خواتین جو نت نئے فیشن اور ہیرے جواہرات دکھانے اسمبلی میں نہ جاتی ہوں، جنہیں پاکستان کے بنیادی وسائل اور مسائل کی آگاہی ہو۔ جن کے بچے اور شوہر، غیرملکی قومیت اختیار کیے ہوئے نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔ وہ غائبانہ کیک نہیں کاٹتے اور تصویریں نہیں چھپواتے ہوں۔ جو طاقت نہیں، تعلیمی صلاحیت بڑھانے کے منصوبے رکھتے ہوں۔ مگر کیسے!

جب ہر صوبے، ہر شہر میں امتحان میں نقل کرنے والے اور کروانے والے موجود ہوں، جب کھیلوں کے لئے 36افراد میں سے ایک ہی گولڈ میڈل لائے۔ اب تو غریبوں کو گھر دلانے کا نعرہ بھی فیل ہوچکا ہے۔ غربت دور کرنے اور خواجہ سرائوں کو بھی سرکاری اداروں میں لانے کا ذکر بھی فریب ہے۔ تو پھر کیا کیا جائے۔ اچھا تو پھر محسن حامد، جس نے عالمی ادبی انعام حاصل کیا۔ اس کے نام کے ذریعہ، شاید پارلیمنٹ کی عزت بچے۔ این جی او اب بس۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).