پنجاب کے ٹکڑے اور خان صاحب کے پنجابی ٹوٹے


اپنے ایڈیٹر صاحب کہتے ہیں کہ بی بی کوئی مزاحیہ کالم شروع کریں جس میں آپ کھل کر جگتیں ہی ماریں۔ صرف ہنسی مذاق کریں کیونکہ آپ سے وہی بن پاتا ہے۔ ہم ابھی تک ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا ہرگز نہیں کہ یہ بڑے گلوکاروں کی  محفل میں سامعین کا اصرار سننے کے لئے گلے کی خرابی کا بہانہ ہے۔ اتنی نہ تو ہماری اوقات ہے اور نہ ہی اپروچ۔ ہمیں کون سا کسی نے پہلی بار کے بعد کہنا ہے۔ ہمیں ایسا بھی کوئی ڈر نہیں کہ ہمارے ریڈر ہمیں سنجیدہ لینا چھوڑ دیں گے۔ ہمارے الفاظ سے کتنوں کا بھلا ہوا ہے ہم بخوبی آشنا ہیں۔ جی اپنی اوقات اچھی طرح پہچانتے ہیں۔

بس ہمارا ایک ہی کنسرن ہے اور وہ یہ کہ اس کام میں مقابلہ بہت سخت ہے۔ لوگ اس قدر موثر مزاح تخلیق کر رہے ہیں کہ ہم کسی کھیت کی مولی نہیں۔ اپنے سیاستدانوں کی ہی مثال لے لیجئے اگر چیف جسٹس صاحب کا ذکر کرنا ممنوع ہے۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہے ہیں ان تمام صاحبان کی پرفارمنس اپنے ہی ریکارڈ توڑتی جا رہی ہے۔ زیادہ دور کیا جانا اپنے موجودہ اور آیندہ وزیر اعظم خان صاحب کو ہی دیکھ لی۔ جی موجودہ وزیر اعظم بھی وہی ہیں۔ یقین نہیں آتا تو سوشل میڈیا پر دیکھ لیں۔

خان صاحب ہر معاملے میں کپتان ہیں۔ ان کی سب سے بڑی سیاسی اچیومنٹ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنا ہے۔ ان سے بڑھ کر کون اہل ہو سکتا ہے اس منصب عظمی کا۔ قوم سے خطاب بھی تیار کر کے رکھا ہوا ہے۔ شیروانی بھی سلیقے سے استری ہو کر ٹنگی رہتی ہے۔ وقت کا کیا پتہ ہوتا ہے۔ ایک دم سے انقلاب آ گیا اور نیا پاکستان بن گیا تو کیا ہمارے وزیر اعظم صاحب شیروانی ڈھونڈتے پھریں گے؟ تقریر لکھواتے پھریں گے؟ آپ بھی نا! ہینڈسم بوائے ہیں۔ سب ہی سج جاتا ہے ان پہ تو۔ ورلڈ کپ کی کٹ ہو یا بیاہ کی شیروانی ؟ مخالفین تو ہیں ہی ناشکرے۔

ابھی دو دن پہلے خان صاحب کا قوم پر ایک اور متوقع احسان نظروں سے گزرا۔ نیلی اجرک کاندھوں پر ڈالے خان صاحب مخدوم خسرو بختیار کے ساتھ یہ اعلان کرتے دکھائی دیے کہ صرف نیا پاکستان ہی نہیں بلکہ نیا پنجاب بھی دم لگنے کی اسٹیج پر ہے۔ جی ہاں! خالی خولی ایک پنجاب کیا ہوتا ہے؟ اب بنے کا جنوبی پنجاب کا ایک نیا نکور صوبہ! سفید کلف والے کرتے پر لی گئی اجرک کی طرح کڑ کڑ کرتا۔ قائد اعظم ثانی نے اعلان فرمایا ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے سو دن کی دیر ہے بس۔ اب پنجاب ہو گا ٹوٹے ٹوٹے۔ صدیوں سے میٹھے پانی کو ترستے سرائیکیوں کو اور کیا چاہئے تھا۔ جوک در جوک خان صاحب کا جوک سیریس لینے لگے۔ نیلی اجرک میں نیلے پانی نظر آنے لگے۔ ستر سال پہلے ہونے والی پنجاب کی تقسیم ناکافی تھی۔ لہذا یہ بخرہ تو ضروری تھا نا۔

 البتہ ملک کے وسیع تر مفاد میں فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنا بہت ضروری ہے۔ ہزارہ صوبے کا بھی ہوتا رہے گا جو ہونا ہے۔ بس پنجاب کی تقسیم اہم ہے۔ اس کے بغیر گزارا نہیں۔ جنوبی پنجاب کے ووٹوں کے بغیر بھی گزارا نہیں۔ اب چاہے اس سے باقی پنجاب جاتا ہو۔ پھر یہ کون سوچے کہ پنجاب میں دو تہائی اکثریت کے بغیر صوبے کی تقسیم ممکن نہیں مگر خان صاحب کو حقیقت جیسی بے تکی چیزوں سے سروکار نہیں اور مخول کئے بغیر تو بالکل گزارا نہیں۔

اوکے بائے

نوٹ: یہ بلاگ چھپتے ہی ہم ٹلہ جوگیاں سنیاس لینے روانہ ہو جائیں گے۔ یہاں تو خان صاحب کے عاشق جینے نہیں دیں گے۔ کیونکہ ہم ہیں ان کے فین نمبر ون۔ اور ان کے پروانے خان صاحب کے لئے پوزیسو ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).