گڈ لک ٹو خسرو بختیار


خوبرو وخوش گفتار مخدوم خسرو بختیار میرا بہت احترام کرتے ہیں۔ خدا انہیں خوش رکھے۔ اسی باعث میں نے کبھی موصوف کی سیاست پر تبصرہ آرائی نہیں کی ہے۔ اس کالم میں بھی ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ حیران محض اس بات پر ہوں کہ بہت چاؤ سے چند ہی روز قبل میاں والی قریشیاں کے اس جواں سال سیاست دان نے ”صوبہ جنوبی پنجاب محاذ“ بنایا تھا۔ ذاتی حوالوں سے میرے بہت ہی محترم بزرگ میر بلخ شیر باز مزاری صاحب نے اس کی سرپرستی قبول کی۔ اس محاذ کی اٹھان دیکھتے ہوئے مجھے یقین کی حد تک گماں ہوا کہ بالآخر اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پنجاب پر”تخت لہور“کے تسلط سے بچاؤ کے راستے بن رہے ہیں۔ خسروبختیار ایک روایتی خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے بھی جدید تر ذہن کے مالک ہیں۔ اعلٰی تعلیم اور نسبتاً نوجوانی میں قومی اسمبلی میں پہنچ جانے کی بدولت سیاسی عمل کو قریب سے دیکھتے ہوئے بہت جلد بھانپ لیا کہ اس دھندے میں کامیاب ہونے کے لئے ”خاندانی“ ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ زمینوں کو کاشت کاری کے لئے ٹھیکے پر دینے کے ذریعے ڈیرے چلانا اور دھڑے بندی میں اُلجھ جانا کافی نہیں۔ یہ زمانہ Cash Flowکا زمانہ ہے۔ صنعت کاری ہی اس Flowکو یقینی بناتی ہے۔

ان تقاضوں کو سمجھتے ہوئے چینی کا ایک کے بعد دوسرا کارخانہ بنایا۔ سنا ہے ان دنوں پاور پراجیکٹس میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک خوب صورت گھر بھی تعمیر کیا ہے۔ ذاتی طیارے پر سفر کرتے ہیں۔ ان سب حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے گماں ہوا کہ خسرو بختیار نے ”صوبہ جنوبی پنجاب محاذ“ کی بنیاد بہت سوچ سمجھنے کے بعد اسی انداز میں رکھی ہوگی جیسے کوئی ذہین صنعت کار اپنے کسی منصوبے کا آغاز کرتا ہے۔ اس محاذ کے قیام کے بعد اخبارات میں اس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے اشتہارات بھی چھپے۔ اسے منظم کرنے کو ایک مرکزی سیکرٹریٹ بنانے کی بات چلی۔

اسلام آباد میں مقیم میرے کئی دوست جو اس ملک میں سیاسی نقشے بنانے والوں سے قریبی روابط رکھتے ہیں مجھے بہت اعتماد سے یہ بتانا شروع ہوگئے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں مخدوم خسروبختیار کا بنایا محاذ جنوبی پنجاب سے قومی اسمبلی کی کم از کم 45 نشستیں جیت لے گا۔ متوقع Hung پارلیمان کی بساط پر یہ محاذ بہت تگڑا مہرہ ثابت ہوگا۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے مذاکرات ہوں گے۔ جس جماعت کو بھی مخلوط حکومت بنانا پڑی وہ اس محاذ کو وزارتِ عظمیٰ دینے پر مجبور ہوسکتی ہے۔ ”سنجرانی ماڈل“ جسے سینٹ کے انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے آزمایا گیا۔

اپنے ذرائع سے خسروبختیار کے انتخابی عمل کے بعد صادق سنجرانی کی صورت ابھرنے کے امکانات سنتے ہوئے میں بہت خوش ہوا۔ دل ہی دل میں سوچتا رہا خسرو بختیار وزیراعظم پاکستان بن گئے تو میرے لئے بڑھاپے کو راحت سے گزارنے کے لئے مناسب وظیفے کا بندوبست کردیں گے۔ میں کتابیں پڑھتا میوزک سنتا انہیں دُعائیں دیتا رہوں گا۔

یہ سوچتے ہوئے اگرچہ میں یہ بھول گیا کہ اپنا ذاتی طیارہ خریدنے کے بعد خسرو بختیار نے مجھے اس میں ایک ”چوہٹا“ بھی نہیں دلوایا ہے۔ اپنے اسلام آباد والے گھر میں صرف ایک بار کھانے کے لئے مدعو کیا۔ شاید وہ مجھے بھول چکے ہیں۔ اپنی ان سے شناسائی پر لیکن اب بھی پُرامید ہوں۔ ذرا کوشش کروں تو کرم فرماہی دیں گے۔

بدھ کی شام خسرو بختیار صاحب نے مگر اپنے ”محاذ“ کو تحریک انصاف میں ضم کردیا ہے۔ ”سنجرانی“ ماڈل“ والی کہانی چند روز بھی نہ چل پائی۔ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کا اکثریتی جماعت کے طور پر ابھرنا اب یقینی نظرآرہا ہے۔ شاید اسے مزید یقینی بنانے کے لئے کراچی کے مصطفےٰ کمال بھی اپنی PSP کو خان صاحب کی جماعت میں ضم کردیں۔ عمران خان صاحب کو چاروں صوبوں کی زنجیربنانے کے لئے بلوچستان سے حال ہی میں ابھری ”باپ“ نامی تنظیم کو بھی تحریک انصاف میں ضم ہوجانا چاہیے یہ سب ہوجائے تو عمران خان صاحب 1997کے نواز شریف کی طرح بہت ہی ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ اس ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے۔

نواز شریف اس مینڈیٹ کو سنبھال نہیں پائے تھے۔ بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کے باوجود جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ طلب کرلیا۔ ان کی جگہ علی قلی خان کے بجائے جنرل مشرف کو تعینات کیا۔ مشرف صاحب نے کارگل کے راستے سری نگر کو آزاد کروانا چاہا تو بوکھلاگئے۔ بالآخر جلاوطن ہونا پڑا۔

عمران خان صاحب اس ملک کی سیاسی حقیقتوں کو لیکن شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی مشترکہ فراست کی بدولت خوب جان چکے ہیں۔ خسروبختیار کا جدید ذہن بھی انہیں اس حوالے سے Pragmaticبنائے رکھے گا۔ ہیوی مینڈیٹ سے منتخب ہوئے عمران خان پانچ سال کی مستحکم حکومت کے ذریعے ”نیا پاکستان“ بنا ہی لیں گے۔ عمر کے اس حصے میں خود غرض ہوا لیکن میں اس فکر میں مبتلا ہوں کہ میرے متوقع مربی مخدوم خسرو بختیارکو اس سب نقشے میں کیا ملے گا۔

ذہن پر بہت زور دیا تو خیال آیا کہ اگر ہیوی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد عمران خان صاحب نے اقتدار حاصل کرنے کے سودنوں کے اندر سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب بنادیا تو خسروبختیار اس کے پہلے وزیر اعلیٰ نامزد ہوکر تاریخ بناسکتے ہیں۔

جنرل ضیاءالحق نے 1985میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد سیاست دانوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا فیصلہ کیا تو پنجاب کے متوقع وزیر اعلیٰ کے طور پر اس صوبے کے روایتی سیاست دانوں کا ذکر ہوا تھا۔ بہاولپور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ مخدوم حسن محمود جو پیر پگاڑا کے برادرِ نسبتی بھی تھے اس حوالے سے بہت تگڑے امیدوار تصورکیے جارہے تھے۔ شمالی پنجاب سے نام ملک اللہ یار کھنڈا کا چلا۔ وسطی پنجاب سے ذکر چودھری پرویز الٰہی کا تھا۔ قرعہ فال مگر نواز شریف کے نام نکلا۔

نوازشریف کی نامزدگی کے بارے میں حیران ہوا میں جب اس ملک کے سیاسی نقشے بنانے والے چند لوگوں سے ملا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان کو جدید ترین ریاست بنانے کے لئے ”فرسودہ“ جاگیردارسیاست دانوں کی ضرورت نہیں رہی۔ جدید ریاست Managerial Skillsکا تقاضہ کرتی ہے۔ یہ Skillsفقط صنعت کاروں کو جبلی طورپر نصیب ہوتی ہے اور نواز شریف کا تعلق ایک صنعت کار گھرانے سے ہے۔

گھرانہ مخدوم خسرو بختیار کا جاگیردارانہ ہے مگر وہ بذاتِ خود صنعت کار بن چکے ہیں۔ ثقافتی اعتبار سے شاید جنوبی پنجاب حاصل کرلینے کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی کو اس صوبے کا وزیراعلیٰ ہونا چاہیے تاکہ تاریخ میں نام آئے۔ قریشی صاحب کا ذہن مگر اب بھی ”کاشت کاروں“ والا ہے۔ جہانگیر ترین اپنی صنعت کارانہ مہارتوں سے ان کا متبادل ہوسکتے تھے۔ انہیں مگر سپریم کورٹ نے عمر بھر کے لئے نا اہل کردیا ہے۔ ترین صاحب کی تاحیات نا اہلی کے بعد جنوبی پنجاب کے پہلے وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز خسروبختیار صاحب کا حق ہوا نظر آرہا ہے۔

صنعت کاروں سے وابستہ جدید ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ ہی ساتھ خسروبختیار سیاست کے لئے اب بھی نوجوان ہیں۔ عمران خان کو نوجوانوں سے بہت امیدیں ہیں اور وہ انہیں بہت خلوص سے پروموٹ کرتے یں۔ KPK سے مثال کے طورپر مراد سعید ان کے بہت چہیتے ہیں۔ خسروبختیار ان کے لئے سرائیکی وسیب سے ابھرتے ایک اور مراد سعید ثابت ہوسکتے ہیں۔ گڈلک ٹوخسروبختیار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).