ہندوستانی مسلمانوں کی نام نہاد مظلومیت


ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس سیکولر ملک میں آپ کا طرز فکر سیکولر ہے؟ مجھے معاف فرمائیں لیکن مظاہر بتا رہے ہیں کہ آپ اندر سے معاشرتی سطح پر تو خود کو سیکولر ظاہر کررہے ہیں لیکن اندر قدامت پرستی کی کائی جمی ہوئی ہے۔ مثلاًطارق فتح جب زی ٹی وی پر مسلمانوں کے شعلہ بکف مسائل پر مسلمانوں ہی سے مکالمہ کرنا چاہتے ہیں توکھلے عام اتر پردیش کا ایک مذہبی اور سیاسی رہنما ان کا سرقلم کرنے پر لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کا اعلان کرتا ہے، نہ آپ اس کی مذمت کرتے ہیں، نہ دوسری مذہبی تنظیمیں اور نہ ہی ہماری سرکار، کیوں؟

تامل ناڈو کے کوئمبٹور علاقے میں ایچ فاروق نامی ایک نوجوان کے قتل کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا، پیدائشی مسلمان تھا لیکن بدبخت نے اسلام چھوڑنے کا گناہ عظیم کیا تھا، سو اسے چار راسخ العقیدہ مومنین نے بے دردی سے قتل کردیا۔ ممبئی کی وہ خاتون صحافی بھی آپ کو اب شاید یاد نہ رہی ہوں جنھوں نے اپنے اخبار میں شارلی ہیبدو کا متنازعہ کارٹون شائع کردیا تھا، حالاں کہ اخبار نے بعد میں اعتذار شائع کیا اور اپنی غلطی کی معافی بھی مانگی لیکن اخبار کی کاپیاں جلائی گئیں اور خاتون ایڈیٹر کو روپوش ہونا پڑا، اس کے بعد آج تک وہ صفحہ صحافت سے غائب ہیں۔

مسلمانوں کے نزدیک مذہب پر تنقیدی گفتگو ناقابل معافی گناہ ہے، خواہ وہ تنقید کتنی بھی شستہ اور عالمانہ دلائل سے کیوں نہ کی جائے، بہرحال وہ ’گستاخی‘ اور ’توہین‘ کے زمرے میں شمار کی جائے گی، البتہ اسی ملک میں عامر خان ایک مسلمان ہونے کے باوجود اپنی فلم PK میں ہندوؤں کی مقدس ہستیوں اور ان کے عقائد کا جم کر مذاق اڑاتا ہے، لیکن چھوٹے موٹے احتجاج کو چھوڑ کر فلم خوب اچھا بزنس کرتی ہے، ذرا تصور کریں کہ اگر یہی عامر خان مسلمانوں کے عقائد پر مبنی اسی طرح کی کوئی فلم بنائے تو اس کا ہندوستانی مسلمان کیا حشر کریں گے؟

میں جانتا ہوں کہ آپ’پدما وتی‘ کا ذکر کرنے سے نہیں چوکیں گے، جسے بعد میں ’پدماوت‘ کا نام دے کر ریلیز کردیا گیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس فلم پر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ہونے والی تمام تر شرانگیزیوں کے باوجود کیا اس مسئلہ کو جمہوری اور قانونی طور پر نمٹا یا نہیں گیا؟ کیا صرف مسلمانوں کے ’جذبات ‘ ہوتے ہیں، ہندو عوام بے حس ہوتی ہے؟ کیا کوئی انصاف پسند شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ’پدماوت‘ کو ریلیز کرکے ہندوؤں کے جذبات سے خود سنگھ پریوار یا بی جے پی نے کھلواڑ کیا اور انھیں حاشیے پر ڈال دیا؟ کیا اسی بے جے پی کے ایک معزز پارلیامنٹ ممبر اور معروف ایکٹر پریش راول کی فلم ”اوہ مائی گاڈ“ آپ نے دیکھی ہے؟ ’گرم ہوا‘ کے علاوہ بھی کچھ دیکھ لیا کریں۔

ہندوتوا کے علمبردار پریش راول نے خود اپنی بنائی ہوئی فلم میں ہندو عقائد کا پوسٹ مارٹم کیا ہے، ان ہی کی ایک اور نسبتاً کم معروف فلم ’دھرم ادھیکاری‘ بھی موجود ہے جو ہندو مسلم تنازعہ پر مبنی ہے، اسے بھی دیکھ لیں کہ کس طرح اس فلم میں مسلمانوں کے تعلق سے برہمنوں کی تنگ نظری کی مذمت کی گئی ہے۔ کیا اس طرح کی فلموں کی توقع آپ پاکستان میں کرسکتے ہیں جو بقول آپ کے ہندوستانی نوجوانوں کو ’پُرکشش‘ لگتا ہے؟ پاکستان چھوڑیے، کیا ہندوستان میں ہی آپ اس طرح کی فلمیں برداشت کرپائیں گے جو مسلمانوں کی مذہبی تنگ نظری پر مشتمل ہوں؟ اس وقت تو آپ کو اس فلم میں سنگھ پریوار کا خفیہ ایجنڈا نظر آئے گا۔

دراصل ہندوستانی مسلمانوں کی ذہنیت ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں رہنے کے باوجود اب بھی و ہی ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کی ہے۔ آپ خود کو ’مغل اعظم‘ سمجھتے ہیں اور ناقابل تسخیر بھی، آپ سے افضل قوم اس دنیا میں کوئی دوسری نہیں، آپ سے اعلیٰ مذہب کسی کا نہیں اور آپ کی بے مثال اخلاقیات تو پوری دنیا کے لیے مشعل ہدایت ہے۔ یہ ہے وہ اصل ذہن سازی جو مسلمانوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، جسے ہمارے ناعاقبت اندیش رہنماؤں نے مزید ہوا دی۔

فاروقی صاحب کو کتے پالنے کا نہ صرف شوق ہے بلکہ وہ ان کی تمام آسائشوں کا خیال رکھتے ہیں۔ کسی زمانے میں ان کے دو کتے ’بادل‘ اور ’بجلی‘ کے نام سے پورے الہٰ آباد میں مشہور تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ فاروقی کتوں کی نفسیات سے خوب اچھی طرح واقف ہوں گے۔ کتے اور گھر کے مکینوں میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ کتا گھر کے باہر کھڑا، بیٹھا ہر آتے جاتے پہ بھونکتا رہتا ہے، اس کا کام ہر نا معلوم شخص پر بھونکنا ہوتا ہے، چاہے وہ اس گھر کی چھت مرمت کرنے آیا ہو یا باتھ روم کے بند گٹر کو درست کرنے کے لیے، ظاہر ہے یہ دونوں کام مکینوں کے فائدے سے وابستہ ہیں۔ لیکن یہ بات سوچنے والی ہے کہ کہیں ہم گھر کے باہر بیٹھنے والے اور ہر اس شخص پر زبان کھولنے والے تو نہیں بن گئے جو اس گھر کی اچھائی چاہتا ہو؟ کیا وجہ ہے کہ اپنی ذات کو چھوڑ کر ہم ہر اس ذات پر لپکتے ہیں جو ہمیں ناگوار گزرنے والی بات کہہ ڈالتا ہے، خواہ وہ ہمارے فائدے کی ہی کیوں نہ ہو؟ ذرا فاروقی صاحب پلٹ کراسی ہندوستانی مسلمان کے ماضی میں جھانکیں تو انھیں وہاں سنگھ پریوار، بی جے پی اور کوئی رام چندر گوہا نظر نہیں آئے گا بلکہ وہ خود کو اپنے ہی پیشواؤں کے ساتھ پائیں گے۔ ذرا دیکھیے، آپ کے’ اپنے‘ آپ کی ’شناخت‘ کیا قائم کررہے ہیں؟

کیا آپ کو گذشتہ دنوں بابری مسجد کے تعلق سے مولانا سید سلمان حسینی ندوی کا بیان اور اس بیان پر مسلمانوں کا غصہ نظر آیا تھا؟ کیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بجائے ان کی تجویز پر سر جوڑ کر بیٹھنے کے انھیں بورڈ سے معزول نہیں کردیا؟ رکیے رکیے، کیا آپ نے کچھ دنوں قبل شیعہ وقف بورڈ کے چیئر مین وسیم رضوی کا حشر نہیں دیکھا تھا جب انھوں نے مدرسے کے خلاف بیان دیا تھا؟ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم کسی متنازعہ مسئلہ پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور وفکر کرنا بھول چکے ہیں، اور صرف بیان کنندہ کی کردارکشی ہی ہماری قومی شناخت بن چکی ہے؟

مسلم پرسنل لا بورڈ نے تو خیرعدالت کو اپنا تحریری موقف دے دیا کہ مسلمان عورت کی عقل مسلمان مرد سے آدھی ہوتی ہے، اس لیے طلاق کے سلسلے میں عورت کی مرضی کو اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ آپ کی چہیتی کانگریس نے اس حلفیہ بیان کی حمایت کی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نہایت ہی قابل قدر، مشفق اور ’شب خون‘ کو جاری رکھنے والی محترم شخصیت یعنی مرحومہ جمیلہ فاروقی کی عقل آپ سے آدھی تھی؟

فاروقی کے مضمون کے تین مرکزی نکتے ہیں، (1) آزادی کے بعد کا ہندوستانی مسلمان، (2) فرقہ وارانہ فسادات (3) اور مسلمانوں کی تعلیم و روزگار کا وہ تجزیہ جو گذشتہ پچاس سالوں میں ایک کلیشے اختیار کرچکا ہے، جب کہ صورت حال کافی بدل چکی ہے لیکن ’جگالی‘ بھی آخر کوئی چیز ہوتی ہے۔ خیر، اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے فاروقی کے برعکس آزاد ہندوستان میں آنکھیں کھولیں۔ ظاہر ہے فاروقی نے جدو جہد آزادی اور جنگ آزادی، تقسیم اور پھر اس کے بعد نئے نویلے آزاد ہندوستان کی دنیا کے جدید نقشے پر پاؤں جمانے کی کوشش کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا۔ میری نسل اکتسابی ہے، لہٰذا براہ راست فاروقی سے میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا آزادی سے پہلے اور اس کے بعد مسلمان امت واحدہ کی شکل میں تھے؟ کیا تقسیم کا واحد سبب مذہب تھا یا اس میں اشراف و اجلاف کی ذہنی اور سماجی کشمکش بھی شامل تھی؟

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان

اشعر نجمی ممبئی کے سہ ماہی جریدے ”اثبات“ کے مدیر ہیں۔

ashar-najmi has 4 posts and counting.See all posts by ashar-najmi