ہندوستانی مسلمانوں کی نام نہاد مظلومیت


چلیے، کسانوں اور دلتوں کو چھوڑیے، میرے ایک سوال کا جواب آپ پوری دیانت داری سے دینے کی کوشش کریں کہ کبھی آپ یا آپ کے ہم خیالوں نے مسلمانوں کے مسائل کے سوا عام ہندوستانی مسئلہ کو ایشو بنا کر ووٹ دیا ہے؟ آپ جس حق سے موجودہ مرکزی حکومت پر اپنے احسانات جتا رہے ہیں، کیا وہ آپ کے اور آپ کے مسلمانوں کے ووٹ سے مرکز میں اقتدار میں آئی ہے؟ اس کے برخلاف آپ لوگوں نے تو اسے اقتدار سے دور رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا، اسے حاشیے میں پھینکنے کی کوشش میں آپ نے لنگڑی لولی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے ڈالا تھا، پھر آپ موجودہ سرکار سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ سب سے اچھے انگور کے گچھے آپ کے حصے میں آئیں؟ آپ تسلیم کریں یا نہ کریں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ آزادی کے بعد آپ اپنے خول میں سمٹے ہوئے لوگ ہیں، آپ کو ہندوستان کے عام مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں، آپ کو صرف اپنے مسائل، اپنے حقوق اور اپنے تحفظ سے مطلب ہے۔

چلتے چلتے فاروقی صاحب کو ایک بری خبر سنانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نئی نسل اپنی لڑائی لڑنا سیکھ چکی ہے۔ وہ اپنی روزی کمانا جانتی ہے، وہ فرقہ وارانہ مسائل سے نمٹنا جانتی ہے، اب اپنے ناعاقبت اندیش رہنماؤں کے مشوروں پر اپنی ترجیحات کا فیصلہ نہیں کرتی، چونکہ نئی ٹیکنالوجی نے اس کے سامنے سارے راز کھول دیے ہیں۔ یہ نسل تعلیم اور روزگار دونوں میں اپنی کفالت کرسکتی ہے۔ ٹھیک ہے، یہ حلقہ ابھی نسبتاً چھوٹا ہے لیکن اس کا دائرہ بتدریج بڑھتا چلا جارہا ہے۔ لہٰذا ہندو پاک کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ اور تعلیم و روزگار جیسے رٹے رٹائے موضوعات کے معیار پر ہندوستانی مسلمانوں کے رویوں اور ان کے مستقبل کا تجزیہ کرکے اپنا مذاق نہ اڑائیں۔

نئی نسل کے اس حلقہ کے لیے، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان؛ مندر مسجد کا قضیہ، فرقہ پرست طاقتوں کے سیاسی شگوفے، گاؤ کشی، مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے، تین طلاق کا مسئلہ وغیرہ جیسے موضوعات اپنی اثر انگیزی کھو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک مکمل طور پر اقتدار میں آنے کے باوجود سنگھ پریوار ہندو ستان کو ہندو راشٹر بنانے کا اپنا دیرینہ خواب نہ پورا کرسکا۔ ذرا سوچیے، آخر وہ کون سی طاقت ہے جو انھیں ایسا کرنے سے روکے ہوئے ہے، مقتدر اعلیٰ ہونے کے باوجود انھیں کس سے خطرہ ہے؟ اگرنریندر مودی لوک سبھا کا الیکشن جیتے تھے تو یاد رکھیے، انھوں نے ’سب کا وکاس‘ کا نعرہ دیا تھا، جس نے ہندوستان کی نئی نسل کو متاثر کیا تھا۔ اس نے مودی کے اس نعرے پر یقین کرلیا لیکن دو سال بعدہی معاشی بدحالی کو دیکھنے کے بعد وہی نسل مودی کے خلاف کھل کر سوشل میڈیا میں بول رہی ہے، ان کا مذاق اڑا رہی ہے اورمختلف موقعوں پر سڑکوں پر اتر آنے سے بھی نہیں چوکتی۔

یاد رکھیے، یہاں بھی بیشتر مسلمانوں کا رویہ محض دفاعی ہے، جب کہ ہندوؤں کی نئی نسل اصولی جنگ لڑ رہی ہے۔ ممکن ہے کہ 2019 کا الیکشن پھر سے مودی ہی جیت جائیں، کیوں کہ الیکشن جیتنا ایک آرٹ ہے، آخر کانگریس بھی تو اپنی تمام تر نا اہلی کے باوجود مدتوں مرکز میں اپنی حکومت بناتی رہی ہے، لیکن یہ طے ہے کہ مودی کو جو مقبولیت پہلی بار حاصل ہوئی تھی، اسے وہ کھو چکے ہیں اور اگر انھوں نے یہی رویہ برقرار رکھا تو بی جے پی کا بھی حال کانگریس کی طرح عبرت ناک ہوگا۔ ہندوستان کی مٹی کا بنیادی مزاج سیکولر ہے، خود ہندو مذہب کا اصل مزاج سیکولر ہے، لہٰذا فرقہ پرستی زیادہ دنوں تک اس مزاج سے لگّا نہیں کھا سکتی۔

اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان

اشعر نجمی ممبئی کے سہ ماہی جریدے ”اثبات“ کے مدیر ہیں۔

ashar-najmi has 4 posts and counting.See all posts by ashar-najmi