کتنا رنگیلا تھا محمد شاہ رنگیلا؟


اس کتاب کے مطالعے سے ایک عجیب بات سامنے آتی ہے کہ صرف بادشاہ ہی نہیں، اہلِ دہلی کی زندگی دو انتہاؤں کے درمیان پینڈولم کی طرح سفر کرتی تھی۔ ایک طرف تو وہ عیش و عشرت سے لبریز زندگی بسر کرتے تھے، جب اکتا جاتے تو سیدھے اولیا کے آستانوں کا رخ کرتے تھے۔ جب وہاں سے دل بھر جاتا تو دوبارہ طاؤس و رباب کی آغوش میں پناہ لیتے تھے۔

مرقعِ دہلی میں آنحضور کے قدم شریف، قدم گاہ حضرت علی، نظام الدین اولیا کا مقبرہ، قطب صاحب کی درگاہ اور درجنوں دوسرے مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں عقیدت مندوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ یہاں ‘اولیائے کرام کی اتنی قبریں ہیں کہ ان پر بہشت بھی رشک کرتی ہے۔’ ایک طرف یہاں گیارہویں شریف ‘ساری دہلی میں بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے، جھاڑ فانوس سجائے جاتے ہیں اور سماع کی پرکیف محفلیں ہوتی ہیں۔

دوسری جانب اسی دوران موسیقی کو بھی خوب فروغ حاصل ہوا۔ درگاہ نے ایسے کئی موسیقاروں کا ذکر کیا ہے جو شاہی دربار سے وابستہ تھے۔ ان میں ادا رنگ اور سدا رنگ سب سے نمایاں ہیں جنھوں نے خیال طرزِ گائیکی کو نیا آہنگ عطا کیا جو آج بھی مقبول ہے۔

بقول مرقع سدا رنگ ‘جیسے ہی اپنے ناخن کے مضراب سے ساز کے تار چھیڑتا ہے دلوں سے بےاختیار ہوک نکلتی ہے اور جیسے ہی اس کے گلے سے آواز نکلتی ہے، لگتا ہے بدن سے جان نکل گئی۔’

اسی دور کی ایک بندش آج بھی گائی جاتی ہے: ‘محمد شاہ رنگیلے سجنا تم بن کاری بدریا، نت نہ سہاوے۔’

محمد شاہ رنگیلے سجنا، تمھارے بنا کالے بادل دل کو نہیں بھاتے۔

انھی پر موقوف نہیں، درگاہ قلی نے درجنوں قوالوں، ڈھولک نوازوں، پکھاوجیوں، دھمدھی نوازوں، سبوچہ نوازوں، نقالوں، حتیٰ کہ بھانڈوں تک کا ذکر کیا ہے جو شاہی دربار سے وابستہ تھے۔

ہاتھیوں کا ٹریفک جام

اس عالم میں رقص کیوں پیچھے رہتا؟ نور بائی کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ اس کے بالاخانے کے آگے امرا و روسا کے ہاتھیوں کا وہ ہجوم ہوتا تھا کہ ٹریفک جام ہو جاتا۔ بقول مرقعِ دہلی:

‘جس کسی کو اس کی محفل کا چسکا لگا اس کا گھر برباد ہوا اور جس دماغ میں اس کی دوستی کا نشہ سمایا وہ بگولے کی طرح چکر کاٹتا رہا۔ ایک دنیا نے اپنی پونجی کھپا دی اور ان گنت لوگوں نے اس کافر کی خاطر سارا سرمایہ لٹا دیا۔’

نور بائی نے نے نادر شاہ سے بھی تعلقات قائم کر لیے تھے اور ممکنہ طور پر ایسی ہی کسی خلوت کی محفل میں اس نے کوہِ نور کا راز نادر شاہ پر کھول دیا۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہ واقعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے مورخ تھیو مٹکاف نے کوہِ نور کے بارے میں کتاب میں رقم کیا ہے، تاہم بعض مورخین اس کی صحت پر شکوک و شبہات ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ اس قدر مشہور ہے کہ ہندوستان کی اجتماعی یاددادشت کا حصہ بن گیا ہے۔

محمد شاہ رنگیلا
محمد شاہ کے دور میں موسیقی کو بھی خوب فروغ حاصل ہوا

درگاہ قلی خاں ایک اور طوائف اد بیگم کا حیرت انگیز احوال کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

‘اد بیگم: دہلی کی مشہور بیگم ہیں جو پائجامہ نہیں پہنتیں، بلکہ اپنے بدن کے نچلے حصے پر پائجامہ کی طرح گل بوٹے بنا لیتی ہیں۔ بعینہ ایسے گل بوٹے بناتی ہیں جو رومی کمخواب کے تھان میں ہوتے ہیں اس طرح وہ امرا کی محفلوں میں جاتی ہیں اور کمال یہ ہے کہ پائجامہ اور اس نقاشی میں کوئی امتیاز نہیں کر پاتا۔ جب تک اس راز سے پردہ نہ اٹھے کوئی ان کی کاریگری کو نہیں بھانپ سکتا۔’

یہ میر تقی میر کی جوانی کا زمانہ تھا۔ کیا عجب کہ یہ شعر انھوں نے اد بیگم ہی سے متاثر ہو کر کہا ہو:

جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ

اس دوران محمد شاہ کے شب و روز کا معمول یہ تھا: صبح کے وقت جھروکۂ درشن میں جا کر بٹیروں یا ہاتھیوں کے لڑائیوں سے دل بہلانا۔ اس دوران کبھی کوئی فریادی آ گیا تو اس کی بپتا بھی سن لینا۔ سہ پہر کے وقت بازی گروں، نٹوں، نقالوں اور بھانڈوں کے فن سے حظ اٹھانا، شامیں رقص و موسیقی سے اور راتیں۔۔۔

بادشاہ کو ایک اور شوق بھی تھا۔ وہ اکثر زنانہ لباس پہننا پسند کرتے تھے اور ریشمی پشواز زیبِ تن فرما کر دربار میں تشریف لاتے تھے، اس وقت ان کے پاؤں میں موتیوں جڑے جوتے ہوا کرتے تھے۔ البتہ کتابوں میں لکھا ہے کہ نادر شاہ کے حملے کے بعد وہ زیادہ تر سفید لباس پر اکتفا کرنے لگے تھے۔

مغل فنِ مصوری جو اورنگزیب کے دور میں مرجھا گیا تھا، اب پوری آب و تاب سے کھل کر سامنے آیا۔ اس دور کے نمایاں مصوروں میں ندھا مل اور چترمن کے نام شامل ہیں جن کی تصاویر مغلیہ مصوری کے سنہرے دور کے فن پاروں کے مقابلے پر رکھی جا سکتی ہیں۔

شاہجہان کے بعد پہلی بار دہلی میں مغل مصوری کا دبستان دوبارہ جاری ہوا ۔ اس طرز کی نمایاں خصوصیات میں ہلکے رنگوں کا استعمال اہم ہے۔ ا س کے علاوہ پہلے دور کی مغلیہ تصاویر میں پورا فریم کھچاکھچ بھر دیا جاتا تھا، محمد شاہی عہد کے دوران منظر میں سادگی پیدا کرنے اور خالی جگہیں رکھنے کا رجحان پیدا ہوا جہاں نظر ادھر ادھر گھوم پھر سکے۔

اسی دور کی ایک مشہور تصویر وہ ہے جس میں خود محمد شاہ رنگیلا کو ایک کنیز سے دادِ عیش دیتے دکھایا گیا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ دہلی میں افواہ پھیل گئی تھی کہ بادشاہ نامرد ہے، جسے زائل کرنے کے لیے اس تصویر کا سہارا لیا گیا جسے آج لوگ ‘پورن آرٹ’ کے زمرے میں رکھیں گے۔

نادر شاہ کا دلی پر حملہ
نادر شاہ 1739 کے اوائل میں درۂ خیبر عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہوا

سونے کی چڑیا

ایسے میں کاروبار حکومت کیسے چلتا اور کون چلاتا؟ اودھ، بنگال اور دکن جیسے زرخیز اور مالدار صوبوں کے نواب عملاً اپنے اپنے علاقوں کے بادشاہ بن بیٹھے۔ ادھر جنوب میں مرہٹوں نے دامن کھینچنا شروع کر دیا اور سلطنتِ تیموریہ کے بخیے ادھڑنا شروع ہو گئے لیکن سلطنت کے لیے سب سے بڑا خطرہ مغرب سے نادر شاہ کی شکل میں شامتِ اعمال کی طرح نمودار ہوا اور سب کچھ تار تار کر گیا۔

نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیوں کیا؟ شفیق الرحمٰن نے اپنی شاہکار تحریر ‘تزکِ نادری’ میں اس کی کئی وجوہات بیان کی ہیں، مثلاۙ ‘ہندوستان کے گویے ‘نادرنا دھیم دھیم’ کر کے ہمارا مذاق اڑاتے ہیں،’ یا پھر یہ کہ ‘ہم تو حملہ کرنے نہیں بلکہ اپنی پھوپھی جان سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔’ مزاح اپنی جگہ، اصل سبب صرف دو تھے۔

اول: ہندوستان فوجی لحاظ سے کمزور تھا۔ دوم: مال و دولت سے لبریز تھا۔

انحطاط کے باوجود اب بھی کابل سے لے کر بنگال تک مغل شہنشاہ کا سکہ چلتا تھا اور اس کا دارالحکومت دہلی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا جس کی 20 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی لندن اور پیرس کی مشترکہ آبادی سے زیادہ تھی، اور اس کا شمار دنیا کے امیر ترین شہروں میں کیا جا سکتا تھا۔

چنانچہ نادر شاہ 1739 کے اوائل میں فاتحینِ ہند کی مشہور گزرگاہ درۂ خیبر عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ کو جب بھی بتایا جاتا کہ نادر شاہ کی فوجیں آگے بڑھ رہی ہیں تو وہ یہی کہتا: ‘ہنوز دلی دور است،’ یعنی، ابھی دلی بہت دور ہے، ابھی سے فکر کی کیا بات ہے۔

جب نادر شاہ دلی سے سو میل دور پہنچ گیا تو طوعاً و کرہاً مغل شہنشاہ کو زندگی میں پہلی بار اپنی فوجوں کی قیادت خود کرنا پڑی۔ یہاں بھی کروفر کا یہ عالم کہ اس کے لشکر کی کل تعداد لاکھوں میں تھی، تاہم اس کا بڑا حصہ باورچیوں، ماشکیوں، قلیوں، خدمت گاروں، خزانچیوں اور دوسرے سویلین عملے پر مشتمل تھا، جب کہ لڑاکا فوجی ایک لاکھ سے کچھ ہی اوپر تھے۔

اس کے مقابلے پر ایرانی فوجی صرف 55 ہزار تھے، لیکن کہاں جنگوں کے پالے نادر شاہی لڑاکا دستے، اور کہاں لہو و لعب میں دھت مغل سپاہی۔ کرنال کے میدان میں صرف تین گھنٹے میں فیصلہ ہو گیا اور نادر شاہ محمد شاہ کو قیدی بنا کر دہلی کے فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوا۔

نادرہ شاہ
تاریخ کہتی ہے کہ قتلِ عام میں دلی کے 30 ہزار شہریوں کی جانیں گئیں

قتلِ عام

اگلے دن عید الضحیٰ تھی۔ دہلی کی مسجدوں میں نادر شاہ کے نام کا خطبہ پڑھا گیا اور ٹکسالوں میں اس کے نام سکے ڈھالے جانے لگے۔ ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ایک طوائف نے نادر شاہ کو قتل کر دیا ہے۔ دہلی کے باسیوں نے اس سے شہ پا کر شہر میں تعینات ایرانی فوجیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کے صفحات پر کچھ یوں رقم ہے:

سورج کی کرنیں ابھی ابھی مشرقی افق سے نمودار ہوئی تھیں کہ نادر شاہ درانی اپنے گھوڑے پر سوار لال قلعے سے نکل آیا۔ اس کا بدن زرہ بکتر سے ڈھکا ہوا، سر پر آہنی خود اور کمر پر شمشیر بندھی ہوئی تھی اور کماندار اور جرنیل ہمراہ تھے۔ اس کا رخ نصف میل دور چاندنی چوک میں واقع روشن الدولہ مسجد کی جانب تھا۔ مسجد کے بلند صحن میں کھڑے ہو کر اس نے تلوار نیام سے نکال لی۔

یہ اس کی سپاہ کے لیے اشارہ تھا۔ صبح کے نو بجے قتلِ عام شروع ہوا۔ سپاہیوں نے گھر گھر جا کر جو ملا اسے تہِ تیغ کرنا شروع کر دیا۔ اتنا خون بہا کہ نالیوں کے اوپر سے بہنے لگا، لاہوری دروازہ، فیض بازار، کابلی دروازہ، اجمیری دروازہ، حوض قاضی اور جوہری بازار کے گنجان علاقے لاشوں سے اٹ گئے، ہزاروں عورتوں کو ریپ کیا گیا، سینکڑوں نے کنوؤں میں گر کر خودکشی کو ترجیح دی۔ کئی لوگوں نے خود اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو قتل کر دیا کہ وہ ایرانی سپاہیوں کے ہتھے نہ چڑھیں۔

اکثر تاریخی حوالوں کے مطابق اس دن 30 ہزار دہلی والے موت کے گھاٹ اترے۔

آخر محمد شاہ نے اپنے امیر نظامِ المک کو نادر شاہ کے پاس بھیجا جس کی التجا پر نادر شاہ نے تلوار دوبارہ نیام میں ڈالی، تب کہیں جا کر اس کے سپاہیوں نے ہاتھ روکا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp