کتنا رنگیلا تھا محمد شاہ رنگیلا؟


قتلِ عام بند ہوا تو لوٹ مار کا بازار کھل گیا۔ شہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور فوج کی ڈیوٹی لگا دی گئی کہ وہ وہاں سے جس قدر ہو سکے، مال و زر اکٹھا کریں۔ جس شخص نے اپنی دولت چھپانے کی کوشش کی، اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

جب شہر کی صفائی ہو گئی تو نادر شاہ نے شاہی محل کی جانب توجہ کی۔ اس کی تفصیل نادر شاہ کے درباری تاریخ نویس مرزا مہدی استرآبادی نے کچھ یوں بیان کی ہے:

‘چند دنوں کے اندر اندر عمال کو شاہی خزانہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہاں موتیوں اور مونگوں کے سمندر تھے، ہیرے، جواہرات، سونے چاندی کی کانیں تھیں، جو انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھیں۔ ہمارے دہلی میں قیام کے دوران شاہی خزانے سے کروڑوں روپے نادر شاہ کے خزانے میں منتقل کیے گئے۔ دربار کے امرا، نوابوں اور راجاؤں نے مزید کئی کروڑ سونے اور جواہرات کی شکل میں بطور تاوان دیے۔’

ایک مہینے تک سینکڑوں مزدور سونے چاندی کے زیورات، برتنوں اور دوسرے ساز و سامان کو پگھلا کر اینٹیں ڈھالتے رہے تاکہ انھیں ایران ڈھونے میں آسانی ہو۔

نادر شاہ نے کل کتنی دولت لوٹی؟ تاریخ دانوں کے ایک تخمینے کے مطابق اس کی مالیت اس وقت کے 70 کروڑ روپے تھی جو آج کے حساب سے 156 ارب ڈالر بنتی ہے۔ یعنی پاکستان کے تین بجٹوں کے برابر!

محمد شاہ رنگیلا
کثرتِ شراب نوشی اور افیم کی لت نے محمد شاہ کو اپنی سلطنت ہی کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا

اردو شاعری کا سنہرا دور

مغلوں کی درباری اور سرکاری زبان فارسی تھی، لیکن جیسے جیسے دربار کی گرفت عوامی زندگی پر ڈھیلی پڑتی گئی، عوام کی زبان یعنی اردو ابھر کر اوپر آنے لگی۔ بالکل ایسے ہی جیسے برگد کی شاخیں کاٹ دی جائیں تو اس کے نیچے دوسرے پودوں کو پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ محمد شاہ رنگیلا کے دور کو اردو شاعری کا سنہرا دور کہا جا سکتا ہے۔

اس دور کی ابتدا خود محمد شاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی ہو گئی تھی جب بادشاہ کے سالِ جلوس یعنی 1719 میں ہی ولی دکنی کا دیوان دکن سے دہلی پہنچا۔ اس دیوان نے دہلی کے ٹھہرے ہوئے ادبی جھیل میں زبردست تلاطم پیدا کر دیا اور یہاں کے لوگوں پر پہلی بار انکشاف ہوا کہ اردو (جسے اس زمانے میں ریختہ، ہندی یا دکنی کہا جاتا تھا) میں یوں بھی شاعری ہو سکتی ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے اردو شاعروں کی پنیری تیار ہو گئی، جن میں شاکر ناجی، نجم الدین آبرو، شرف الدین مضمون اور شاہ حاتم وغیرہ کے نام اہم ہیں۔

انھی شاہ حاتم کے شاگرد مرزا رفیع سودا ہیں، جن سے بہتر قصیدہ نگار اردو آج تک پیدا نہیں کر سکی۔ سودا ہی کے ہم عصر میر تقی میر کی غزل کا مثیل آج تک نہیں ملا۔ اسی دور کی دہلی میں ایک طرف میر درد کی خانقاہ ہے، وہی میر در جنھیں آج بھی اردو کا سب سے بڑا صوفی شاعر مانا جاتا ہے۔ اسی عہد میں میر حسن پروان چڑھے جن کی مثنوی ‘سحرالبیان’ آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس دوران پنپنے والے ‘دوسرے درجے’ کے شاعروں میں بھی ایسے نام شامل ہیں جو اس زمانے میں دھندلا گئے لیکن کسی دوسرے دور میں ہوتے تو چاند بن کر چمکتے۔ ان میں میر سوز، قائم چاند پوری، مرزا تاباں، اور میر ضاحک وغیرہ شامل ہیں۔

محمد شاہ رنگیلا
صرف دو مغل حکمران اکبر اور اورنگزیب ہی ایسے گزرے ہیں جنھوں نے محمد شاہ سے زیادہ عرصہ حکومت کی

کثرتِ شراب نوشی اور افیم کی لت نے محمد شاہ کو اپنی سلطنت ہی کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ اسی لیے ان کی عمر مختصر ہی ثابت ہوئی۔ جب ان کی عمر 46 برس تھی تو ایک دن ان پر اچانک غشی کا دورہ پڑا۔ حکیم نے ہر دوا آزما لی۔ آخر انھیں اٹھا کر حیات بخش باغ منتقل کر دیا گیا، لیکن یہ باغ بھی ان کی حیات کی گھڑیاں کچھ زیادہ طویل نہیں کر سکا اور وہ ساری رات بےہوش رہنے کے بعد اگلے دن چل بسے۔

انھیں نظام الدین اولیا کے مزار میں امیر خسرو کے پہلو بہ پہلو دفن کیا گیا۔ یہ اپریل کی 15 تاریخ تھی اور سال تھا 1748۔ ایک لحاظ سے یہ محمد شاہ کے لیے اچھا ہی ہوا کیوں کہ اسی سال نادر شاہ ہی کے ایک جرنیل احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملوں کی ابتدا کر دی تھی۔

ظاہر ہے کہ بابر، اکبر یا اورنگزیب کے برعکس محمد شاہ کوئی فوجی جرنیل نہیں تھا، اور نادر شاہ کے خلاف کرنال کے علاوہ اس نے کسی جنگ کی قیادت نہیں کی۔ نہ ہی ان میں جہاں بانی و جہاں گیری کی وہ قوت اور توانائی موجود تھی جو پہلے مغلوں کا خاصہ تھی۔ وہ مردِ عمل نہیں بلکہ مردِ محفل تھے اور اپنے پردادا اورنگزیب کے برعکس فنونِ حرب سے زیادہ فنونِ لطیفہ کے شیدائی تھے۔

کیا مغل سلطنت کے انہدام کی ساری ذمہ داری محمد شاہ پر ڈالنا درست ہے؟ ہمارے خیال سے ایسا نہیں ہے۔ خود اورنگ زیب نے اپنی انتہا پسندی، سخت گیری اور بلاوجہ لشکر کشی سے تخت کے پایوں کو دیمک لگانا شروع کر دی تھی۔

جس طرح صحت مند جسم کو متوازن غذا کی ضرورت پڑتی ہے، ویسے ہی صحت مند معاشرے کے لیے زندہ دلی اور خوش طبعی اتنے ہی ضروری ہیں جتنی طاقتور فوج ۔ اورنگزیب نے ایک کونہ پکڑا، دوسرا چھوڑ دیا تو پڑپوتے نے اس کے بالکل مخالف سمت پر توانائیاں صرف کر دیں۔

یہ سب کہنے کے باوجود نامساعد حالات، بیرونی حملوں اور طاقتور امرا کی ریشہ دوانیوں کے دوران مغل سلطنت کا شیرازہ سنبھالے رکھنا ہی محمد شاہ کی سیاسی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ان سے پہلے صرف دو مغل حکمران اکبر اور اورنگزیب ہی گزرے ہیں جنھوں نے محمد شاہ سے زیادہ عرصہ حکومت کی۔

May 12, 2018 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp