محبت اور خوبصورتی


لوگ ہمیشہ کہتے ہیں :”اندرونی خوبصورتی اہم ہے، بیرونی نہیں۔ ” اچھا یہ درست نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، پھولوں کو شہد کی مکھیوں کو متوجہ کرنے کے لئے کیوںکر اتنی توانائی صرف کرنی پڑتی اور بارش کے قطرے کیوں کر، سورج کے مقابل آ جانے پر قوس قزح کی صورت اختیار کر لیتے ؟

کیوں کہ قدرت خوبصورتی چاہتی ہے اور تب ہی مطمئن ہوتی ہے جب خوبصورتی سر بلند ہو جائے۔ ہماری اندرونی خوبصورتی بھی دکھائی دیتی ہے اور اس کا ظہور اس روشنی کی صورت ہوتا ہے جو ہماری آنکھوں سی جھلکتی ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا اگر کسی نے معمولی لباس پہنا ہو یا ہمارے نفاست کے تصور سے مطابقت نہ رکھتا ہو یا وہ خود دوسروں کو متا ثر کرنے میں دلچسپی نہ رکھتا ہو.

آنکھیں روح کا آئینہ ہیں اور ہر چھپی چیز ظاہر کردیتی ہیں؛اور ایک آئینے کی طرح یہ اس شخص کو بھی ظاہر کر دیتی ہیں جو ان میں جھانکتا ہے لہٰذا اگر کسی کی آنکھوں میں دیکھنے والے شخص کی روح تاریک ہو تو وہ صرف اپنی بدصورتی دیکھ سکے گا.

ہر تخلیق خوبصورت ہوتی ہے لیکن خطرناک حقیقت یہ ہے کہ ہم انسان اکثر خدائی طاقت سے لا تعلق ہو جاتے ہیں ہم اپنے آپ کو آمادہ کر لیتے ہیں کہ وہ اثر لے لیں جو دوسرے ہمارے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم اپنی ہی خونصورتی کا انکار کر دیتے ہیں کیونکہ دوسرے اسے پہچانتے نہیں یا پہچاننا نہیں چاہتے.اپنے آپ کو من و عن تسلیم کرنے کی بجا ے ہم اپنے اردگرد جو دیکھتے ہیں اس کے مطابق تصنع اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم ایسا بننے کی کوشش کرتے ہیں جسے دوسرے “دلکش” سمجھتے ہیں.آھستہ آھستہ ہماری روح مرجھانے لگتی ہے، ہمارا ارادہ کمزور ہونے لگتا ہے اور ہماری تمام توانائی جس سے ہم نے دنیا کو خوبصورت بنانا ہوتا ہے مرجھانے لگتی ہے۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ دنیا وہی ہوتی ہے جو ہم تصور کرتے ہیں۔ ہم چاند کی روشنی نہیں بنتے بلکہ اسے منعکس کرنے والا پانی کا تالاب بن جاتے ہیں۔ کل پانی دھوپ سے بھاپ بن کر اڑ جائے گا۔ اور کیونکہ کبھی کسی نے کہا تھا “تم بد صورت ہو ” یا “وہ دلکش ہے ” ان تین سادہ لفظوں سے وہ ہمارا سارا ا عتماد چھین لیتے ہیں اور ہم بدصورت اور تلخ بن جاتے ہیں.

اسی لمحے ہم نام نہاد دانائی سے تسکین حاصل کرتے ہیں، جو زندگی کے اسرار کو تکریم دینے کے بجاۓ اپنے نظریات مسلّط کرنے والے لوگوں کے خیالات کا مجموعہ ہے.یہ “دانائی” تمام غیر ضروری قوانین، قواعد و ضوابط اور پیمائشوں پر مشتمل ہے جس کا مطمح نظر ایک معیاری طرز عمل متعین کرنا ہے.

اس جھوٹی دانائی کی رو سے ہمیں خوبصورتی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ سطحی اور بے ثبات ہے۔ یہ حقیقت نہیں تمام مخلوق پرندوں سے پہاڑوں تک، پھولوں سےدریاؤں تک،تخلیق کے معجزے کی عکّاسی کرتے ہیں.

اگر ہم دوسرے لوگوں کے اکسانے پر خود کو ویسا نہ بناییں جیسا وہ چاہتے ہیں تب ہم بتدریج اپنی روح کے اندر موجود سورج کی چمک کو اپنے وجود کا حصّہ بنا سکیں گے۔

محبّت پاس سے گزرتی ہے اور کہتی ہے “میں نے پہلے تمہیں نہیں دیکھا ” اور ہماری روح جواب دیتی ہے ‘ اچھا، مزید توجہ دو، کیوں کہ یہاں میں ہوں۔ باد صبا نے تمہاری آنکھوں سے گرد اڑا دی ہے۔ لیکن اب جب کہ تم نے مجھے پہچان لیا ہے، مجھے دوبارہ نہ چھوڑنا۔ کیونکہ ہم سب کو خوبصورتی کی چاہ ہوتی ہے۔ خوبصورتی یکسانیت میں نہیں بلکہ مختلف ہونے میں ہے۔ کون زرافے کا اس کی لمبی گردن کے بغیر تصور کر سکتا ہے یا ایک کیکٹس اپنے کانٹوں کے بنا کیا ہو گا ؟پہاڑ کی نا ہموار چوٹیاں جو ہمیں گھیرے میں لئے ہوتی ہیں انھیں کیا چیز عظمت دیتی ہے؟

یہ نا قص ہونا ہے جو ہمیں حیران اور متوجہ کرتا ہے۔ جب ہم دیو دار کے درخت کو دیکھتے ہیں تو ہم نہیں سوچتے کہ تمام شاخیں یکساں لمبائی کی ہونی چاہییں۔ ہم سوچتے ہیں یہ کتنا مضبوط ہے.

جب ہم ایک سانپ دیکھتے ہیں ہم کبھی نہیں کہتے ‘یہ زمین پر رینگ رہا ہے جب کہ میں سر ا و نچا کر کے چل رہا ہوں.ہم سوچتے ہیں ” یہ چھوٹا ہے لیکن اس کی جلد رنگین ہے، اس کی حرکت میں وقار ہے اور یہ مجھ سے زیادہ طاقتور ہے.”

جب اونٹ صحرا سے گزرتا ہے اور جس جگہ ہم جانا چاہتے ہیں وہاں ہمیں لے جاتا ہے، ہم کبھی نہیں کہتے اس کا کوہان نکلا ہوا ہے اور اس کے بد صورت دانت ہیں، ہم سوچتے ہیں یہ اپنی وفا داری اور مدد گا ری کی وجہ سے ہماری محبّت کا مستحق ہے.اس کے بغیر میں کبھی دنیا دریافت نہیں کر پاتا۔

غروب آفتاب اس وقت زیادہ خوبصورت لگتا ہے جب یہ بے قاعدہ بادلوں سے ڈھکا ہو، کیونکہ صرف اس وقت ہی یہ اتنے رنگ منعکس کرتا ہے جو شا عر ی اور خواب بناتے ہیں.

افسوس ان پر جو سوچتے ہیں ” میں خوبصورت نہیں، اس لئے محبّت نے میرے دروازے پر دستک نہیں دی ” در حقیقت، محبّت نے دستک دی، لیکن جب انہوں نے دروازہ کھولا، تو وہ محبت کا خیر مقدم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے.

وہ پہلے خود کو خوبصورت بنانے میں بے حد مصروف تھے جبکہ وہ بالکل مناسب تھے۔

وہ دوسروں کی طرح بننے کی کوشش کر رہے تھے، جب محبت اصل کی تلاش میں تھی.

وہ باہر سے آنے والی چیز کی عکّاسی کر رہے تھے، یہ بھلا کر کہ سب سے چمک دار روشنی اپنے اندر سے آتی ہے۔

Paulo Coelho

Excerpt from Manuscript Found in Accra

مترجم :روبینہ یاسمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).