آنے والا وقت کچھ ثابت نہیں کرے گا


“آنے والا وقت ثابت کر دے گا”۔ یہ وہ جملہ ہے جو بارہا سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ خاص طور پر آج کل کے پاکستان کے سیاسی حالات میں جہاں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔

ویسے تو قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اس مضمون کے لکھنے تک پاکستان کی سیاست قابل رشک رحجانات اور عنوانات سے عبارت نہیں رہی ہے لیکن پچھلے تقریباً تیس برس میں پاکستان کی سیاست میں جو ہنگامہ آرائی اور ہیجان خیزی داخل ہو گئی ہے وہ سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز مطالعہ ہے۔

گذشتہ یعنی بیسویں صدی کی نویں دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے مابین شروع ہوئی سیاسی کشمکش اب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسی جنگ و جدل میں ڈھل چکی ہے۔ لہجے حد سے زیادہ تلخ اور اعمال ناقابل تحسین ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ الزامات اور دشنام کا ایک طوفان ہے جو گردوغبار کی صورت فضا میں پھیلا ہوا ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہے اور ہر ایک کے نزدیک مخالف فریق دنیا کا سب سے مکروہ اور بدعنوان فرد ہے۔ اس دھندے میں سیاسی راہنماؤں کے بعد سیاسی کارکن اور اب عوام بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں۔

سب کو اپنا اپنا مؤقف منوانا ہے اور مؤقف منوانے کے لیے الفاظ سے لے کر ہتھیار تک بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ بحث مباحثوں میں دلائل سے لے کر دھونس اور دھمکی تک بات جا پہنچتی ہے۔ عقل کی بات سے عداوت اب معمول ہے۔ ایسے میں “آنے والا وقت ثابت کر دے گا” والا جملہ کس حد تک معنویت رکھتا ہے، یہ ایک سوال ہے۔

ہمارے پاس ماضی کو جاننے کے لیے جو ایک طریقہ ہے وہ ہمارے پاس پہنچی وہ تحاریر ہیں جو ماضی میں مختلف اوقات میں لکھی جاتی رہیں اور ان کی بنیاد پر تاریخ دانوں اور تجزیہ نگاروں نے اپنی تاریخ اور تجزیئے لکھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس زمانے کی معلومات ہم تک تحریری شکل میں پہنچی ہیں اس وقت کے لکھنے والے آیا کسی تعصب کے زیر اثر لکھ رہے تھے یا پھر غیر جانب دار ہو کر حالات اور واقعات کی حقیقی منظر کشی کر رہے تھے۔ اس سوال کو پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حالات کی تصویر کچھ اور بنتی ہے۔

آج کل کے لکھنے والے پاکستان کی سیاست میں گھل جانے والی تلخی سے اپنا دامن چاہنے کے باوجود بچا نہیں پا رہے اور شعوری یا غیر شعوری طور پر جانب داری اپناتے ہوئے کسی کے بھی خلاف یا اس کے حق میں لکھ رہے ہیں۔ اس سے مستقبل میں آنے والی نسلوں کے سامنے آج کے حالات کی جو تصویر آئے گی اس میں لامحالہ ہیرو اور ولن کا تعین کر دیا گیا ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہو گی کہ بیک وقت ہیرو ولن بھی ہو گا اور ولن ہیرو بھی ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر نواز شریف صاحب کو ہیرو پیش کیا جائے گا تو عمران خان صاحب ایک ولن کے طور پر سامنے آئیں گے اور اگر عمران خان صاحب ہیرو کا درجہ پا جاتے ہیں تو نواز شریف صاحب ایک مصدقہ ولن کے طور پر تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ یہ بذات خود ایک المیہ ہے۔

غالباً یہ بھی درست ہی ہے کہ لکھنے والوں کی اکثریت حقائق سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتی لیکن لکھتے ہوئے ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے جیسے لکھنے والے کو تمام حالات اور واقعات سے آگاہی الہ دین کے چراغ کے جن کی معرفت حاصل ہو گئی ہو۔ جو لوگ اپنے ہاتھ کی پشت کی خبر نہیں رکھتے وہ پس پشت قوتوں پر ایسی ایسی ذمہ داریاں دھرتے نظر آتے ہیں کہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ عصبیت سے متاثر ہو کر اپنی پسندیدہ شخصیت کو ساتویں آسمان پر بٹھا دیا جاتا ہے اور ہر مخالف کو پاتال تک اتارنا فرض منصبی بن جاتا ہے۔ پھر نوکِ قلم سے ایسے ایسے شاہکار برآمد ہوتے ہیں جو مخصوص عصبیت رکھنے والوں کی نظروں میں تو یقیناً بہت عمدہ ہوتے ہوں گے مگر آنے والے وقت کے تناظر میں وہ ایک جانب دارانہ اور غیرمنصفانہ تاریخ پڑھنے والوں کے سامنے رکھتے نظر آتے ہیں۔

پڑھنے والے بھی تعصب کا شکار ہیں اور برملا ان لکھنے والوں کو جو ان کے خیالات اور مؤقف سے ہٹ کر لکھ رہے ہوتے ہیں لفافہ صحافی، بکاؤ لکھاری اور لنڈے کے دانش ور قسم کے القابات سے نوازنے میں ایک لمحہ کی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں “آنے والا وقت ثابت کرے گا” والی بات نہایت بوگس معلوم ہوتی ہے۔ آنے والا وقت وہی ثابت کر سکتا ہے جو اس وقت لکھا جا رہا ہے اور جو اس وقت لکھا جا رہا ہے اسے موجودہ وقت میں غیر جانب داری کی کسوٹی پر پرکھنا ایک مشکل کام ہے۔ لہٰذا آنے والے وقت میں ماضی کا مطالعہ کرنے والوں تک متعصب اور جانب دارانہ مؤقف ہی پہنچیں گے۔

اگر ہم تاریخ کا سنجیدہ مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں آنے والا وقت ماضی کے حوالے سے کچھ بھی ثابت نہیں کرتا۔ سکندر اعظم سے لے کر قائد اعظم تک وقت نے وہ کچھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو شاید امر واقعہ بھی نہ ہو۔ ہم حتمی طور پر یہ بھی نہیں کہ سکتے کہ ہم تک پہنچنے والی معلومات ہر لحاظ سے درست ہیں بھی یا نہیں کیونکہ موجودہ دور میں جس طرح سیاسی مخالفین کا رگڑا لگایا جا رہا ہے اس میں حقیقت سے زیادہ خواہشات کا عمل دخل محسوس ہوتا ہے۔ اور خواہشات کو سامنے رکھ کر جو کچھ بھی لکھا جائے گا وہ حقیقت سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ اور کیا عجب اسی طرح ماضی میں بھی ہوتا چلا آیا ہو۔

ماضی کا مطالعہ کرنے والا تاریخ کی مختلف کتابیں پڑھ کر اپنی پسند اور طبیعت کے مطابق نتائج اخذ کرتا ہے۔ زید کے لیے وقت کچھ اور ثابت کر دیتا ہے جبکہ بکر کے لیے وہی وقت کچھ اور ثابت کر رہا ہوتا ہے۔ چناچہ یہ دعویٰ کہ “آنے والا وقت ثابت کر دے گا” محض خود کو طفل تسلی دینے کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ آنے والے وقت کے بجائے خود ہی درست طریقے سے ثابت کر لیا جائے اور وہ بھی ٹھوس حقائق اور درست معلومات کی بنیاد پر ورنہ ہم تاریخ سے بددیانتی کے مرتکب ہوں گے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad